بی اے، ایم اے پرائیوٹ کے طلبہ کا مستقبل خطرے میں

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2021
ایچ ای سی نے خیبر پختونخوا میں یونیورسٹیز کو بی اے اور ایم اے کے امتحانات کے لیے پرائیوٹ طلبہ کا داخلہ روکنے کی ہدایت کردی۔ فائل فوٹو:اے پی پی
ایچ ای سی نے خیبر پختونخوا میں یونیورسٹیز کو بی اے اور ایم اے کے امتحانات کے لیے پرائیوٹ طلبہ کا داخلہ روکنے کی ہدایت کردی۔ فائل فوٹو:اے پی پی

پشاور: نجی اُمیدوار کی حیثیت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں طلبہ 31 مارچ کے بعد اب اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گے کیونکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے خیبر پختونخوا میں یونیورسٹیز کو بی اے اور ایم اے کے امتحانات کے لیے پرائیوٹ طلبہ کا داخلہ روکنے کی ہدایت کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ملازمت یا کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے پرائیوٹ امتحان دینے والے طلبہ کے لیے صوبے میں ایچ ای سی اور یونیورسٹیز نے کوئی متبادل نظام تیار نہیں کیا ہے۔

پبلک سیکٹر کی 30 یونیورسٹیز میں سے چند کے ڈیٹا کے مطابق گزشتہ سال عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے زیر اہتمام بیچلر آف آرٹس (بی اے) کے امتحان میں 30 ہزار طلبہ نجی اُمیدوار کی حیثیت سے حاضر ہوئے، یونیورسٹی آف پشاور میں 25 طلبہ، بنوں یونیورسٹی میں 20 ہزار 450 اور گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمٰعیل خان میں 11 ہزار طلبہ امتحان میں شریک ہوئے۔

مزید پڑھیں: وزیر تعلیم خیبر پختونخوا نے تعلیمی اداروں کے حوالے سے اہم اعلان کر دیا

ذرائع نے بتایا کہ 'تقریبا اتنے ہی اُمیدوار ماسٹر آف آرٹس (ایم اے) امتحانات میں بھی شریک ہوئے'۔

انہوں نے کہا کہ نجی اُمیدواروں کی حیثیت سے بی اے اور ایم اے کی سطح پر تعلیم کے حصول کو ایچ ای سی نے صوبہ بھر میں پہلے ہی شروع کیے گئے 4 سالہ بیچلر آف اسٹڈیز پروگرام کے متبادل کے طور پر روک دیا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر ایچ ای سی نے یونیورسٹیز کو بی اے اور ایم اے امتحانات کے لیے نجی اُمیدواروں کا 31 دسمبر 2020 سے داخلہ نہ کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم سرکاری شعبے کی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کی درخواست پر ایچ ای سی نے اس تاریخ میں 31 مارچ 2021 تک توسیع کردی ہے۔

گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر افتخار احمد نے ڈان کو بتایا کہ ایچ ای سی نے پہلے سے ہی بی اے / بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے والے اور ایم اے / ایم ایس سی میں باقاعدہ داخلہ لینے کے خواہاں یا بطور نجی اُمیدوار امتحانات کے منتظر طلبہ کے لیے کوئی واضح ہدایت نامہ فراہم نہیں کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ایچ ای سی نے بی اے / بی ایس سی کے تیسرے سال کے امتحانات میں شرکت کرنے والے طلبہ کے لیے بھی کوئی رہنما اصول فراہم نہیں کیا جو آئندہ سال چوتھے سال کے امتحانات میں شرکت کریں گے۔

پروفیسر افتخار احمد نے کہا کہ 'ایچ ای سی کے فیصلے کے نفاذ کے ساتھ مجھے ڈر ہے کہ ہم حکومت کی تعلیم تک رسائی کی پالیسی کے خلاف کام کریں گے اور ہزاروں پرائیوٹ طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کے تمام سرکاری شعبوں کی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز نے متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرار داد کے ذریعے ایچ ای سی سے مطالبہ کیا ہے کہ بی اے / بی ایس سی اور ایم اے / ایم ایس سی کو فارغ کرنے کے لیے اس میں 2023 تک توسیع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن یونیورسٹیز کو شدید مالی پریشانی کا سامنا ہے وہ نجی اُمیدواروں سے وصول کی جانے والی فیسوں کے ذریعے اپنی آمدنی کا 33 فیصد حاصل کرتی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: علم کی 'آن لائن' شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!

انہوں نے کہا کہ کراچی میں طلبہ نے ایچ ای سی کے فیصلے کے خلاف بار بار مظاہرے کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ طلبہ کو نجی طور پر تعلیم حاصل کرنے سے روکنا بھی پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت حکومت کو یہ پابند بنایا گیا ہے کہ وہ طلبہ کی تعلیم تک رسائی کو یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ بی اے اور ایم اے کی سطح پر نجی طلبہ کی تعداد ریگولر طلبہ کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'عام طور پر طلبہ اپنی ملازمت، کالجز اور یونیورسٹیز کی فیس بھرنے کی استطاعت نہ ہونے اور کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے پرائیوٹ تعلیم کا انتخاب کرتے ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں