ڈینیئل پرل کیس: سندھ حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت

سندھ ہائی کورٹ نے 13 جنوری کو دلائل طلب کیے—فائل/فوٹو: وکی میڈیا کامنز
سندھ ہائی کورٹ نے 13 جنوری کو دلائل طلب کیے—فائل/فوٹو: وکی میڈیا کامنز

امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کیس پر صوبائی حکام نے سندھ ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ کیس میں نامزد 4 ملزمان کو بری کیے جانے کے بعد انہیں اس لیے رہا نہیں کیا گیا کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے حکم امتناع جاری کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت کے نمائندوں نے جب اصرار کیا کہ ستمبر میں سپریم کورٹ کے ذریعے درخواست گزاروں کی رہائی کے خلاف جاری کردہ عبوری طور پر حکم امتناع برقرار ہے، جس پر سندھ ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے دونوں فریقین کو 13 جنوری کو دلائل دینے کی ہدایت کردی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عدالت میں پیش کی گئیں دستاویزات کی تصدیق کروائیں گے، سپریم کورٹ

خیال رہے کہ درخواست گزار احمد عمر سعید شیخ، فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل نے اپنے وکلا کے توسط سے سندھ ہائی کورٹ میں عدالت کے احکامات کے باوجود انہیں رہا نہ کرنے پر صوبائی اور جیل حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپریل میں ٹرائل کورٹ کے سزا کے حکم کو ختم کردیا تھا اور گزشتہ ماہ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کی جانب سے انہیں احتیاطی طور پر جیل میں رکھنے کے احکامات کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور جیل حکام کو ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

جب معاملہ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو ججز کے بینچ کے سامنے آیا تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین کے ساتھ محکمہ داخلہ سندھ کے سیکریٹری اور جیل کے سینئر عہدیدار حاضر ہوئے۔

صوبائی قانونی افسر نے کہا کہ سپریم کورٹ سندھ حکومت اور مقتول صحافی کے والدین کی جانب سے ٹرائل کورٹ کے حکم کو طے کرنے کے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کر رہی ہے اور 28 ستمبر کو عدالت عظمیٰ نے درخواستگزاروں کی اگلی سماعت تک رہائی سے روکنے کا حکم جاری کیا تھا۔

تاہم انہوں نے دعوٰی کیا کہ سپریم کورٹ کا حکم اب بھی برقرار ہے کیوں کہ اسے عدالت عظمیٰ نے واضح طور پر ختم یا تبدیل نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمی روزانہ کی بنیاد پر اپیلوں پر سماعت کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ٹرائل کورٹ کے فیصلے تک لاش کی شناخت نہیں ہوئی تھی، وکیل

ایڈووکیٹ ندیم آذر نے بینچ کو بتایا کہ درخواست گزاروں کے مرکزی وکیل محمود اے شیخ اپیلوں کی سماعت کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔

بینچ نے درخواست گزاروں کے وکیل کو عدالت عظمی کے احکامات کی کاپیاں پیش کرنے کی ہدایت کی اور دونوں فریقین سے کہا کہ وہ اگلی سماعت پر اپنے دلائل پیش کریں کہ کیا عدالت عظمیٰ کا حکم اب بھی برقرار ہے یا نہیں۔

خیال رہے رواں برس اپریل میں سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی این اے سے ڈینیئل پرل کی لاش کی شناخت ہوئی تھی، وکیل کا انکشاف

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے دائر درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں