چیئرمین پی اے سی وفاقی سیکریٹریز کو سزا دینے کیلئے کمیٹی کو بااختیار بنانے کے خواہاں

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2021
وزیراعظم کو خط کے لیے چیئرمین نے مشاورت کی-فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیراعظم کو خط کے لیے چیئرمین نے مشاورت کی-فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پارلیمنٹ کے اعلیٰ احتسابی فورم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین آڈٹ رپورٹس پر عمل میں ناکامی پر وفاقی سیکریٹریز کو سزا دینے کے لیے کمیٹی کو بااختیار بڑھانے کے خواہاں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ گزشتہ دہائی میں پی اے سی کے 24 ہزار آڈٹ پیراس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ماننا ہے کہ وفاقی سیکریٹریز کو سزا دینے لیے اختیارات حاصل کرنے کے بعد کمیٹی اس پوزیشن میں ہوگی کہ انہیں مجبور کرے کہ وہ آڈٹ پیراس پر کارروائی کریں۔

مزید پڑھیں: اکاؤنٹس کے آڈٹ پر اے جی پی اور انجینئرنگ کونسل کے مابین تنازع

تاہم اس قدم سے بیوروکریسی مجروح ہوگی اور یہ امکان ہے کہ وہ کمیٹی کو اس طرح کے اختیارات دینے پر مزاحمت کرے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پی اے سی چیئرمین رانا تنویر حسین نے وفاقی سیکریٹریز کی معطلی کے لیے پی اے سی کو بااختیار بنانے سے متعلق قواعد میں ترمیم کرنے کے لیے وزیراعظم کو خط لکھنے کی تجویز پر کمیٹی کے کچھ اراکین سے مشاورت کی تھی کیونکہ کمیٹی کا خیال ہے کہ بیوروکریسی بظاہر اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے آڈٹ پیراس کو نمٹانے میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔

اس حوالے سے جب پی اے سی کے چیئرمین سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ کمیٹی نہیں ہے جسے اس طرح کے بڑے بیک لاگ کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے چونکہ یہ وفاقی سیکریٹریز پر انحصار کرتی تھی جو اپنی متعلقہ وزارتوں اور ڈویژنز میں پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم پی اے سی رولز میں ترامیم چاہتے ہیں تاکہ کمیٹی کو بااختیار بنایا جائے کہ وہ قصوروار بیوروکریٹس کو جرمانہ کرسکیں کیونکہ اس وقت ہم ان کی سالانہ کانفیڈینشیل رپورٹس (اے سی آر)کی ڈاؤن گریڈنگ کے لیے ہدایات جاری کرنے کے سوا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وزارتوں کے پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران 22 ویں گریڈ کے افسران ہیں اور ان کی اے سی آر کی ڈاؤن گریڈنگ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا، لہٰذا ہم ایک قصورار افسر کو معطل کرنے اور اسے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنانے کے لیے اختیارات چاہتے ہیں‘۔

دوسری جانب بیوروکریسی سمجھتی ہے کہ یہ ایک بلاجواز مطالبہ ہے چونکہ پی ای سی کے پاس اپنے آئینی مینڈیٹ کے طور پر فرائض کی انجام دہی کے لیے کافی اختیارات موجود ہیں۔

دیگر کیسز میں کارروائی کے التوا کے علاوہ 36 کھرب روپے (18 کھرب ایف بی آر کے اور 18 کھرب پیٹرولیم ڈویژن کے) سے زائد کی وصولیوں سے متعلق ایف بی آر اور پیٹرولیم ڈویژن کے آڈٹ پیراس پر معاملات رکے ہوئے ہیں چونکہ وزارتیں اور ان کے ماتحت ڈویژنز عدالتی مقدمات کی مبینہ طور پر صحیح پیروی نہیں کر رہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت توانائی نے پی اے سی کے ایل این جی معاملے کا از خود نوٹس لینے کا اختیار چیلنج کردیا

نتیجتاً پی اے سی کو متعلقہ آڈٹ پیراس کو لینے کے لیے مقدمات کے فیصلے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

علاوہ ازیں جہاں تک پی اے سی کے آڈٹ پیراس پر کارروائی کے زیر التوا کا معاملہ ہے اگست 2018 تک 18 ہزار 500 آڈٹ پیراس زیر التوا تھے اور ہر سال تقریباً 2ہزار سے 2 ہزار 200 تک نئے پیراس آئے، جس نے زیر التوا پیراس کی تعداد کو تقریباً 20 ہزار 500 سے 20 ہزار 900 تک پہنچا دیا۔

مزید یہ کہ جہاں تک 36 کھرب روپے کی وصولی سے متعلق بات ہے تو سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، پشاور ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ میں قانونی چارہ جوئی نے پی اے سی کو متعلقہ آڈٹ پیراس کو لینے سے روک رکھا ہے۔


یہ خبر 11 جنوری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں