پی ڈی ایم کے فیصلے کے تحت مسلم لیگ (ن) نیب بل سے دستبردار

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2021
ایوان نے جبری گمشدگی میں ملوث افراد کیلئے عمر قید کی سزا کی تجویز کا حامل بل مسترد کردیا — فائل فوٹو: اے پی پی
ایوان نے جبری گمشدگی میں ملوث افراد کیلئے عمر قید کی سزا کی تجویز کا حامل بل مسترد کردیا — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے فیصلے کے مطابق قومی اسمبلی میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کا مطالبہ کرنے والے نجی رکن کے بل کو واپس لیتے ہوئے اعلان کیا کہ اپوزیشن ملک کے احتساب قوانین کو تبدیل کرنے کے کسی حکومتی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں دوسرا اہم واقعہ حکومت کی مخالفت کے بعد اس بل کو مسترد کرنا تھا جو آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے مشترکہ طور پر پیش کرتے ہوئے ملک کے کسی بھی حصے میں جبری گمشدگی میں ملوث افراد کے لیے عمر قید کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن، نیب بل 'بغیر کسی تبدیلی کے' منظور کروانے پر رضامند

جس بل سے مسلم لیگ (ن) دستبردار ہوئی، اس میں ملک میں احتساب عدالتوں کے ججوں کے تقرر کے لیے وفاقی حکومت کے اختیار سے دستبرداری کی درخواست کی گئی تھی اور اسے خرم دستگیر خان، رانا ثنا اللہ، محسن نواز رانجھا اور مریم اورنگزیب نے مشترکہ طور پر پیش کیا تھا۔

خرم دستگیر خان نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے قومی احتساب ترمیمی بل 2020 کے نام سے نجی رکن سے بل پیش کرنے کا کہا تو خرم دستگیر خان نے کہا کہ میں نے اس بل کو واپس لے لیا ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے فیصلے کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے نیب (قومی احتساب بیورو) قوانین میں ترمیم یا تبادلہ خیال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسمبلی اجلاس کے بعد ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے خرم دستگیر خان نے کہا کہ یہ ایک سیدھا سادہ ایک صفحے کا بل ہے جس کے ذریعے احتساب عدالت کے ججوں کے تقرر کے لیے وفاقی حکومت کے اختیار کو متعلقہ اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب اسمبلی نے بینکاری عدالتوں، انسداد دہشت گردی عدالتوں، کسٹم عدالتوں اور انسداد منشیات عدالتوں میں ججوں کے تقرر سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے اسی طرح کے چار بلوں کو مسترد کردیا جب ان سبھی کے متعلقہ وزرا اور پارلیمانی سیکریٹریز نے سخت مخالفت کی تھی، یہ تمام بل صوتی ووٹ کے ذریعے مسترد کردیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب قوانین میں ترمیم کا معاملہ: پارلیمانی کمیٹی بنانے کی منظوری

انسداد منشیات عدالتوں میں ججوں کے تقرر سے متعلق بل کو پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے محسن نواز رانجھا نے رانا ثنااللہ کے کیس کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب نے دیکھا کہ کس طرح موبائل فون پر ایک سادہ پیغام کے ذریعے کسی جج کا کیس کی سماعت کے دوران تبادلہ کیا گیا، انہوں نے تجویز پیش کی کہ ججوں کے تبادلے کے اختیارات صوبائی اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس کو دیے جائیں تاکہ ججوں کو ایگزیکٹو کے ممکنہ اثر و رسوخ سے بچایا جا سکے۔

پیر کو مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی گروپوں کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے بعد پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے حکومت سے کسی بھی معاملے خصوصاً نیب قوانین پر بات چیت کے امکان کو مسترد کردیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) حکومت کو احتساب کے قوانین کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دے گی، انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکمرانوں کو اسی نیب کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس وقت اپوزیشن کے لیے ہے۔

دریں اثنا قومی اسمبلی نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی طرف سے پاکستان پینل کوڈ 1860 اور ضابطہ برائے فوجداری طریقہ کار 1898 میں ترمیم کے مطالبے سے متعلق بل کو بھی مسترد کردیا جس کا مقصد ملک میں جبری گمشدگی کو 'مجرمانہ' بنانا ہے۔

محسن داوڑ نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے لاپتا ہونے سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صوبوں میں بدامنی پھیل چکی ہے، انہوں نے کہا کہ بل کا مقصد جرم کو جرم قرار دینا تھا، انہوں نے کہا کہ بل میں جبری گمشدگی میں ملوث افراد کے لیے عمر قید کی سفارش کی گئی ہے، انہوں نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری سے بل کی حمایت کرنے کو کہا اور انہیں ماضی کی یاد دلائی جب وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس مسئلے پر بات کیا کرتی تھیں۔

مزید پڑھیں: 'اپوزیشن نے نیب قانون میں منی لانڈرنگ کو بطور جرم ختم کرنے کی بھی ترمیم پیش کی تھی'

اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے پارلیمانی سیکریٹری برائے داخلہ شوکت علی نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد اب امن و امان صوبائی موضوع بن گیا ہے، انہوں نے کہا کہ انہوں نے ان کی رائے لینے کے لیے بل صوبائی حکومتوں کے پاس بھیج دیا ہے اور ابھی ان کا کوئی جواب نہیں آیا ہے، انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے کہا کہ وہ اس بل کو مؤخر کردیں لیکن مؤخر الذکر نے اسے ووٹنگ کے لیے ڈال دیا جس کے نتیجے میں بالآخر اسے مسترد کردیا گیا۔

گرما گرم دلائل

اجلاس کے آغاز پر ایوان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور حزب اختلاف کے اراکین کے مابین گرما گرم دلائل کا تبادلہ ہوا جب اپوزیشن نے بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے پر ان کی تحریک التوا پر بحث کا مطالبہ کیا۔

جب پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر اور راجا پرویز اشرف نے ڈپٹی اسپیکر سے معمول کی کارروائی کو معطل کرنے کے بعد مباحثے کی اجازت دینے کو کہا تو وزیر خارجہ نے فلور سنبھال لیا اور پہلے کسی اور دن بحث کا مشورہ دیا لیکن جب اپوزیشن نے احتجاج کیا تو بعد میں اعلان کیا کہ حکومت اس مسئلے پر فوری طور پر آج بحث کرنے کے لیے تیار ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال نے شاہ محمود قریشی کے اس معاملے پر جواب دینے کے معاملے پر سوال اٹھایا جس کو اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کے سامنے اٹھایا تھا، انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی حکومت کے مشیر ہونے کے باوجود پارلیمانی امور سے متعلق امور کا جواب دے رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر وزیر خارجہ پارلیمانی امور کو دیکھ رہے ہیں تو پھر وزارت خارجہ کون چلا رہا ہے، انہوں نے الزام لگایا کہ وزیر کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے ہی ملک کو بین الاقوامی سطح پر تمام محاذوں پر 'ذلت' کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے خواہ وہ پی آئی اے ہو یا مسئلہ کشمیر۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیر خارجہ کا دفاع کیا اور پھر پیر کے روز حکومتی وفد کے ساتھ شیڈول میٹنگ میں شرکت نہ کرنے پر مسلم لیگ (ن) کو نشانہ بنایا۔

وزیر نے مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی اجلاس کا واضح حوالہ دیا جس سے مریم نواز نے خطاب کیا تھا اور کہا کہ حزب اختلاف کے تقریباً 100 منتخب اراکین نے پارلیمنٹ کو اہمیت دینے کے بجائے اس اجلاس میں شریک ہونے کو ترجیح دی جس کی صدارت غیر منتخب شخص نے کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ آپ آئیں گے اور پارلیمنٹ کو زیادہ آسانی سے چلانے میں تعاون کریں گے اور اسپیکر قومی اسمبلی کے دفتر میں گفتگو ہو گی، ہم اسپیکر قومی اسمبلی کے دفتر گئے، اپوزیشن کے دوسرے لوگ آئے، اگر کوئی جماعت نہیں آئی تو وہ مسلم لیگ (ن) تھی۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے اراکین آئین کو مائیک کے سامنے یاد رکھتے ہیں لیکن پارلیمنٹ سے باہر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

علی محمد خان نے کہا کہ ہمیں ووٹ کو عزت دو کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کل آپ نے ووٹ کو بہت عزت دی جب آپ اس مقدس پارلیمنٹ کے بجائے ایک غیرمنتخب شخص کے سامنے گئے۔

ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو یہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے بجائے پارٹی کے دفتر میں کرنا چاہیے تھا۔

مسلم لیگ (ن) کی مریم اورنگزیب نے وزیر کو جواب دینا چاہا لیکن ڈپٹی اسپیکر نے ایجنڈے پر موجودہ 70 فیصد سے کارروائی کیے بغیر اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں