اسٹیل ملز کے ملازمین کی برطرفی کے خلاف درخواست پر نوٹسز جاری

اپ ڈیٹ 03 فروری 2021
سندھ ہائی کورٹ نے وزارت برائے صنعت و پیداوار، پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ اور دیگر کو نوٹسز جاری کردیے—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
سندھ ہائی کورٹ نے وزارت برائے صنعت و پیداوار، پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ اور دیگر کو نوٹسز جاری کردیے—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی برطرفی کے خلاف دائر درخواست پر وزارت برائے صنعت و پیداوار، پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ اور دیگر کو نوٹسز جاری کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

سماعت میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ یہ فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ فریقین نے درخواست گزاروں کو ملازمت سے فارغ کرنے کے نوٹس جاری کرتے ہوئے قانون کے تحت کارروائی کی یا کسی پالیسی فیصلے کے تحت ایسا کیا اور کیا ان کے پاس مزدورں کے قوانین یا دیگر کے تحت کوئی مناسب اور مؤثر حل موجود تھا یا نہیں۔

مزید پڑھیں: اسٹیل ملز کے ملازمین کی تعداد میں کمی کیلئے 19 ارب روپے سے زائد کی ضمنی گرانٹ منظور

مزید کہا گیا کہ 'درخواست کو برقرار رکھتے ہوئے، فریقین کے ساتھ ساتھ ڈپٹی اٹارنی جنرل کو اس ماہ کے تیسرے ہفتے میں دفتر کے ذریعے مقرر کردہ تاریخ کا نوٹس جاری کیا جائے'۔

درخواست پر دلائل کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے ججز کو آگاہ کیا کہ ان کے مؤکلوں کی برطرفی کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت نہیں ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز سے نکالے گئے کئی ملازمین نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور ان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے 17 نومبر کو ملازمین کو جاری کیے گئے لیٹر غیرقانونی تھے اور درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق اور جنرل کلاسز ایکٹ کے ساتھ عدلیہ کے قانون کی بھی خلاف ورزی تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمت سے نکالنے کا معاملہ: اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کا عدالت سے رجوع

انہوں نے مزید کہا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ کی مذموم نیت ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ وہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے ملز کی نجکاری چاہتے تھے۔

وکیل نے کہا تھا کہ کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری (سی سی او پی) اس معاملے سے نمٹنے کی اہل نہیں ہے کہ وہ پاکستان اسٹیل ملز جیسے قومی ادارے کی نجکاری کرے، جو وفاقی حکومت اور اس سے وابستہ افراد کی تباہی کے دہانے پر تھی۔

وکیل نے اپنی دلیل کی حمایت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر بھی انحصار کیا کہ 24 اپریل 2019 کو چیئرمین اور سی سی او پی کے ممبران کے تقرر کا نوٹی فکیشن اب موجود نہیں اور اس طرح اس درخواست کی سماعت ہوسکتی ہے اور اس پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 10 اے کا حوالہ دیتے ہوئے مذمت کی کہ ایسے لیٹرز جاری کرتے ہوئے درخواست گزاروں کی عرضی نہیں سنی گئی۔

وکیل نے کہا کہ کورونا وائرس کی ہنگامی صورتحال میں درخواست گزار اپنی خدمات سے محروم ہوگئے۔

واضح رہے کہ نومبر میں پاکستان اسٹیل ملز نے ڈی سی ایز ،منیجرز اور صحت عامہ سمیت مختلف شعبوں سے 4 ہزار 544 ملازمین کو برطرف کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسٹیل ملز سے ملازمین کو نکالنے کا معاملہ: عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت 9 جون مقرر کردی

پاکستان اسٹیل ملز کی ملازمت سے برطرفی کی زد میں آنے والے شعبوں میں'اساتذہ، لیکچرار، اسکولوں اور کالجوں کا غیر تدریسی عملہ، ڈرائیورز، فائرمین، آپریٹرز، صحت عامہ اور سیکیورٹی اسٹاف، چوکیدار، مالی، پیرا میڈیکل اسٹاف، باورچی، آفس اسٹاف، فنانس ڈائریکٹوریٹ کا عملہ، اے اینڈ پی ڈائریکٹوریٹ اور اے اینڈ پی ڈپارٹمنٹ شامل ہے’۔

خیال رہے کہ اس سے قبل اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی تعداد میں کمی کا عمل شروع کرنے کے لیے 19 ارب 65 کروڑ 60 لاکھ روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ کی منظوری دے دی گئی تھی۔

اس سے قبل جون میں وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کے تمام ملازمین کو برطرف کرنے کی منظوری دے دی تھی لیکن اس معاملے پر شدید احتجاج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں