صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد جوبائیڈن انتظامیہ کا پہلی مرتبہ ترکی سے رابطہ

اپ ڈیٹ 03 فروری 2021
جیک سلیوان نے جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے امریکا - ترکی تعلقات کو تعمیری بنانے کی خواہش پر زور دیا---فائل فوٹو
جیک سلیوان نے جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے امریکا - ترکی تعلقات کو تعمیری بنانے کی خواہش پر زور دیا---فائل فوٹو

امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے دو ہفتے بعد ترکی کے صدر طیب اردوان اور امریکی صدر کے اعلیٰ مشیروں کے مابین پہلا باضابطہ رابطہ ہوا ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق طیب اردوان کے مشیر برائے چیف خارجہ پالیسی ابراہیم کلن اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے شام، لیبیا، مشرقی بحیرہ روم، قبرص اور ناگورنو کاراباخ سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔

مزید پڑھیں: روسی دفاعی نظام خریدنے پر امریکا نے ترکی پر پابندیاں عائد کردیں

رپورٹ کے مطابق ابراہیم کلن نے جیک سلیوان کو بتایا کہ شام کے شمالی حصے میں کرد ملیشیا گروپوں کے لیے امریکی حمایت اور ترکی کی جانب سے روسی ایس -400 دفاعی نظام خریدنے کے معاملے پر دونوں ممالک کے مابین موجود اختلافات کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

دونوں ممالک کے اہم عہدیداروں کے درمیان ہوئی گفتگو سے متعلق جاری ایک بیان میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ جیک سلیوان نے جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے امریکا - ترکی تعلقات کو ’تعمیری‘ بنانے کی خواہش پر زور دیا۔

قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن نے کہا کہ جیک سلیوان نے ’نیٹو کے ذریعے ٹرانزٹلانٹک سلامتی کو مستحکم کرنے کے لیے انتظامیہ کے ارادے سے آگاہ کیا اور اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ترکی نے روسی ایس -400 ایئر میزائل سسٹم کے حصول کے لیے اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: شام میں کرد ٹھکانوں پر حملے، امریکا نے ترکی پر پابندیاں لگادیں

نیٹو کے اتحادی واشنگٹن اور انقرہ ترکی کے روسی ساختہ 400 ایس دفاعی نظام کی خریداری پر کشیدگی ہے۔

دسمبر میں سابق ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاملے پر ترکی پر طویل متوقع پابندیاں عائد کردی تھیں جسے ترکی نے ’سنگین غلطی‘ قرار دیا تھا۔

واشنگٹن کا کہنا ہے کہ S-400s امریکا کے جدید F-35 جنگی طیاروں اور نیٹو کے وسیع تر دفاعی نظام کے لیے خطرہ ہے۔

ترکی نے اس کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایس -400 کو نیٹو میں ضم نہیں کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: کشیدگی کے بعد امریکا اور ترکی کے تعلقات میں اہم پیش رفت

علاوہ ازیں انقرہ نے متضاد دعووں کی جانچ پڑتال کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ بنانے کی پیش کش بھی کی تھی۔

انقرہ کا کہنا تھا کہ ایس 400 کی خریداری چوائس نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے کیونکہ وہ اطمینان بخش حالات کے ساتھ نیٹو کے دوسرے اتحادیوں سے میزائل دفاع حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں