اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت نے کہا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر عائد جوہری پابندیوں کے فیصلے کو بدلنے کی درخواست پر سماعت ہو سکتی ہے۔

غیرملکی خبرایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی عدالت کی جانب سے مذکورہ بیان سامنے آنے کے بعد واشنگٹن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پابندیوں کے خلاف مقدمہ عدالت کے دائر اختیار سے باہر ہے۔

مزیدپڑھیں: امریکا نے ایران کے جوہری سائنسدانوں پر پابندی کا اعلان کردیا

ایران کے وزیر خارجہ نے دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں 3 سال قبل شروع ہونے والے معاملے میں گزشتہ روز آنے والے فیصلے کو’فتح‘ قرار دی ہے۔

تہران نے الزام لگایا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 کے جوہری معاہدے کو منسوخ کرکے یورپی اتحادیوں کو مایوس کیا اور تہران کے خلاف پابندیوں کو دوبارہ فعال کرکے دونوں ممالک کے مابین 1955 میں دوستی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

دوسری جانب واشنگٹن نے کہا تھا کہ معاملہ ہیگ میں قائم آئی سی جے کے دائرے اختیار سے باہر ہے اور یہ پابندیاں اس لیے ضروری ہیں کہ ایران نے بین الاقوامی سلامتی کے لیے ’شدید خطرات‘ پیدا کیے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے ایران کے 8 اعلیٰ عہدیداروں پر پابندی کا اعلان کردیا

لیکن عدالت میں ججوں نے امریکا کے تمام اعتراضات مسترد کردیے۔

ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ٹوئٹ کیا کہ ’ایران کے لیے ایک اور قانونی کامیابی‘، ایران نے ہمیشہ (بین الاقوامی) قانون کا پوری طرح احترام کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کے لیے اپنی بنیادی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کا اعلیٰ وقت ہے۔

ٹرمپ نے 2018 میں یک طرفہ طور پر ایران کے جوہری معاہدے سے امریکا کی دست برداری کا اعلان کردیا تھا جہاں سابقہ معاہدے کے تحت ایران نے اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے اپنی یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، ٹرمپ نے معاہدے سے دستبردار ہونے کی وجہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام، اس کی علاقائی پالیسیوں اور دیگر امور کو قرار دیا تھا۔

جب امریکا نے پابندیاں بڑھا دیں تو ایران نے بتدریج اور عوامی سطح پر معاہدے کی حدود کو ترک کردیا کیونکہ بڑھتے ہوئے کشیدہ حالات و واقعات کی وجہ سے دونوں ملک سال کے آغاز میں جنگ کے قریب آ گئے تھے۔

مزیدپڑھیں: ٹرمپ نے مشیروں سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی بات کی، امریکی اخبار کا انکشاف

2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران نے فورڈو میں یورینیم کی افزودگی روکنے اور اس کے بجائے اسے "ایٹمی، طبیعیات اور ٹیکنالوجی کا مرکز" بنانے پر اتفاق کیا تھا۔

لوئس نے کہا تھا کہ یہ مقام ایران کے جوہری معاہدے کے نتیجے میں ہونے والے مذاکرات کا ایک اہم مرکز تھا، امریکا ایران پر اسے بند کرنے پر اصرار کرتا رہا ہے جبکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی اسے سرخ لکیر قرار دیتے رہے ہیں۔

معاہدے کے خاتمے کے بعد ہی ایران نے وہاں پر یورینیم افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں