مجھے ساڑھے تین گھنٹوں تک یرغمال رکھا گیا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 10 فروری 2021
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ کہ یہ حملہ میری ذات پر نہیں عدلیہ اور ادارے پر حملہ ہے—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ کہ یہ حملہ میری ذات پر نہیں عدلیہ اور ادارے پر حملہ ہے—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدالت پر وکلا کے دھاوے کے بارے میں ریمارکس دیے ہیں کہ دوبارہ ایسا واقعہ نہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اِس واقعے کے ذمہ داران کو مثال بنایا جائے۔

وکلا کے اسلام ہائی کورٹ پر دھاوا بولنے کے تیسرے روز آج عدالتیں کھلیں تو ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے ساڑھے 3 گھنٹوں تک یرغمال رکھا گیا، میں ایکشن لے سکتا تھا لیکن میں نے اکیلے محصور رہنے کا فیصلہ کیا اور ہائی کورٹ سے جانے کے بجائے ساڑھے 3 گھنٹوں تک یرغمال رہ کر سامنا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اگر اس معاملے پر ایکشن لیتا تو کہتے اپنے ہی ایڈووکیٹس کے خلاف کارروائی کروادی، اس معاملے میں اتھارٹی بار کونسل ہے انہیں اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کرنے والے وکلا کے خلاف مقدمہ درج

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیے کہ وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ کر کے سب کو راستہ دکھایا ہے، عدالت بار کونسل سے امید کرتی ہے کہ وہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ حملہ میری ذات پر نہیں عدلیہ اور ادارے پر حملہ ہے۔

دو روز قبل پیش آئے واقعے کے باعث عدالت کے اندر اور باہر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے مکمل ہڑتال کی کال دیتے ہوئے عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور کہا کہ جو وکیل کسی عدالت میں پیش ہو گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق سیکریٹری وقاص ملک اور میاں عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے عدالت میں پیش ہوکر چیف جسٹس بلاک حملے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔

میاں عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں عدالت میں پیش ہوا ہوں لیکن شرم محسوس کر رہا ہوں، نوجوان وکلا کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

مزید پڑھں:لاہور ہائیکورٹ، پنجاب بار ایسوسی ایشن کی اسلام آباد میں وکلا کے احتجاج کی حمایت

انہوں نے کہا کہ جو چیف جسٹس ہمارے ساتھ شفقت کرتے ہیں ان کے گریبان پر جا کر ہاتھ ڈالا، ہمارے معاشرے میں عزت اب ختم ہو چکی ہے، ان اقدامات کی وجہ سے پورے ملک میں وکلا پر تُھو تُھو ہو رہی ہے۔

جس پرجسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں یہ اس کا عکس ہے جو ہم بن چکے ہیں، ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا بن چکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کسی شخص کی انفرادی نہیں بلکہ عہدے کی عزت ہوتی ہے، آج یہاں کوئی اور ہے کل کوئی اور ہوگا لیکن ادارے موجود رہیں گے، چاہے جج ہو یا وکیل ہمیں ایک دوسرے کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ واقعات تو پنجاب میں گوجرانوالہ اور لاہور وغیرہ میں ہوا کرتے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عزت ذلت اللہ کی طرف سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: 'غیر قانونی چیمبرز' مسمار کرنے پر وکلا کا احتجاج، ہائی کورٹ پر دھاوا

چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے بھی ایک کیس کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ پر حملے کو 5 فیصد وکلا کی کارروائی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ 5 فیصد نے یہ سب کچھ کیا 95 فیصد تو پروفیشنل وکیل ہیں، جو کچھ دو روز قبل ہوا اس پر انتہائی شرمندہ ہوں۔

17وکلا کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد بار کونسل کے رکن نصیر کیانی اور 27 فروری کو ہونے والے انتخابات میں بار ایسوی ایشن کے اعلیٰ عہدوں کے امیدواروں سمیت 17 وکلا کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کردیے ہیں۔

توہین عدالت کے نوٹسز وصول کرنے والوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدارتی امیدوار راجا زاہد، امیدوار برائے سیکریٹری تصدق حنیف اور امیدوار بوائے جوائنٹ سیکریٹری یاسمین سندھو شامل ہیں۔

ان کے علاوہ احسن مجید گجر، ارباب ایوب گجر، فیصل جدون، فرزانہ مغل، حماد ڈار، نازیہ عباسی، شائستہ تبسم، کلثوم رفیق، کامران یوسفزئی، حافظ ملک مظہر جاوید، خالد محمود راجا امجد اور راجا فرخ کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے۔

جن وکلا کو نوٹسز جاری ہوئے وہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر دھاوا بول کر املاک کو نقصان پہنچانے، عملے کے ساتھ بدتمیزی کرنے،چیف جسٹس بلاک کا فرنیچر اور کھڑکیاں توڑنے والے 400 وکلا میں شامل تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ

خیال رہے کہ اتوار کی رات ضلعی انتطامیہ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور مقامی پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-8 کی ضلعی عدالتوں کے اطراف میں انسداد تجاوزات آپریشن کیا تھا۔

اس آپریشن کے دوران وکلا کے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا تھا اور اس آپریشن کے خلاف مزاحمت پر 10 وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’بار سیاست‘ میں وکلا کی فائرنگ کی خطرناک روایت، مقدمات درج

آپریشن کے ردِ عمل پر پیر کی صبح تقریباً 400 وکلا ضلعی عدالتوں پر جمع ہوئے اور بعدازاں بغیر کسی رکاوٹ کے 100 کاروں کے قافلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد وکلا نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوا بولا اور املاک کو نقصان پہنچایا، کھڑکیاں اور گملے توڑے گئے اور ججز کے خلاف گالم گلوچ کی گئی۔

احتجاج کرنے والے وکلا نے عملے کے ساتھ بدتمیزی کی اور چیف جسٹس بلاک میں تعینات سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا، اس کے ساتھ انہوں نے جبری طور پر میڈیا کو احتجاج کی کوریج کرنے سے روکا اور صحافیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیگر ججز نے مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور انہوں نے پولیس ری انفورسمنٹ اور رینجرز کے کنٹرول سنبھالنے تک چیف جسٹس بلاک کا گھیراؤ جاری رکھا۔

بعدازاں وکلا کے منتخب نمائندوں نے ججز کے ساتھ مذاکرات کیے اور احتجاج ختم کرنے کے لیے اپنے مطالبات پیش کیے۔

ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق وکلا نے سرکاری خرچ پر مسمار کیے گئے چیمبرز کی دوبارہ تعمیر، ڈپٹی کمشنر کے تبادلے اور رات گئے کیے گئے آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے وکیلوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں