وزیراعظم کے دستخط شدہ جواب میں خبر کی تردید، عدالت نے ترقیاتی فنڈز کیس نمٹادیا

اپ ڈیٹ 11 فروری 2021
عدالت کے 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت کے 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے معاملے میں عمران خان کے دستخط شدہ جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیے گئے نوٹس پر مذکورہ معاملے کی سماعت کی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا نوٹس لیا تھا اور معاملے پر سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا تھا۔

جس پر چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں ایک 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے، بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن تھے۔

آج اس معاملے کی دوسری سماعت جب ہوئی تو گزشتہ روز طلب کیا گیا وزیراعظم کے دستخط شدہ محکمہ خزانہ کا جواب پیش کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ترقیاتی فنڈز کیس: لگتا ہے وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ ٹھیک سے نہیں پڑھا، جسٹس عیسیٰ

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو کہا تھا کہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو 50 کروڑ روپے کے فنڈز سے متعلق محکمہ خزانہ کا واضح جواب جمع کرائیں، جس پر وزیراعظم کے دستخط موجود ہوں۔

اس پر جب آج وزیراعظم کے دستخط شدہ محکمہ خزانہ کا جواب پیش کیا گیا تو اس میں اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی خبر کی تردید کی گئی۔

ساتھ ہی سماعت میں اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پر اعتراض کیا۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو اعتراض آج کر رہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا، جس پر اٹارنی جرنل نے کہا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے، کسی رکن اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیے جا سکتے۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا وزیر اعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟ وزیراعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے، وزیراعظم اس وقت جوابدہ ہے جب معاملہ ان سے متعلق ہو، حکومت جوابدہ ہو تو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جاسکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکریٹری سے مانگا گیا تھا، حکومت سیکریٹریز کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔

انہوں نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ کرنے دیا کریں'۔

اس موقع پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ کل مجھے واٹس ایپ پر کسی نے کچھ دستاویزات بھیجی ہیں، حلقہ این اے 65 میں حکومتی اتحادی کو بھاری بھرکم فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا سڑک کی تعمیر کے لیے مخصوص حلقوں کو فنڈز دیئے جا سکتے ہیں، کیا حلقے میں سڑک کے لیے فنڈز دینا قانون کے مطابق ہے؟

انہوں نے کہا کہ ہم دشمن نہیں عوام کے پیسے اور آئین کے محافظ ہیں، اُمید ہے آپ بھی چاہیں گے کہ کرپشن پر مبنی اقدامات نہ ہوں۔

جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ میرے خلاف ٹوئٹس کی بھرمار ہورہی ہے، کیا کرپٹ پریکٹس کے خلاف اقدامات، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نے وزیراعظم کے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کا نوٹس لے لیا

ان کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو سیاسی اقدامات پر آئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں تاہم ماضی میں عدالتیں وزرائے اعظم کو طلب کرتی رہی ہیں، ساتھ ہی انہوں کہا کہ کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے۔

جسٹس عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے کہا کہ پانچ سال کی مدت کم ہوتی ہے، وزیراعظم کو چاہیے کہ ووٹ میں توسیع کے لیے اسمبلی سے رجوع کریں۔

ان کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ واٹس ایپ والی دستاویزات آپ کی شکایت ہے، جائزہ لیں گے، جس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ مجھے شکایت کنندہ نہ کہیں میں صرف نشاندہی کر رہا ہوں، آپ نے شاید میری بات ہی نہیں سنی۔

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کافی دیر سے آبزرویشن دے رہے ہیں، بات تو میری نہیں سنی گئی۔

بعد ازاں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کا جواب کافی مدلل ہے، جج اور وزیراعظم ایک مقدمے میں فریق ہیں، (تاہم) ہم وزیراعظم آفس کو کنفرنٹ کرنے نہیں بیٹھے۔

جس کے بعد عدالت نے وزیراعظم کے جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اراکین اسمبلی کو فنڈز دینے کا نوٹس نمٹا دیا۔

معاملے کا پس منظر

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 جنوری کو پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون سازوں کا اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا تھا۔

وزیراعظم نے پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت ہر رکن قومی اور صوبائی اسملبی کے لیے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا تاکہ وہ اپنے ووٹرز کے لیے ترقیاتی اسکیمیں شروع کرسکیں۔

بعد ازاں 3 فروری کو ایک کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے ہر رکن اسمبلی کو 50 کروڑ روپے کی ترقیاتی گرانٹ دینے کی اخباری خبر کا نوٹس لیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر کی 2 رکنی بینچ نے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامہ لکھا تھا آئین کی دفعہ 5(2) جو بتاتی ہے کہ آئین اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی ناقابل قبول ذمہ داری ہے اور دفعہ 204(2) جو سپریم کورٹ کو عدالتی حکم کی پاسداری نہ کرنے والے شخص کو سزا دینے کا اختیار دیتی ہے، کا حوالہ دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کیلئے 50 کروڑ روپے کی ترقیاتی گرانٹ کا اعلان

مزید یہ کہ ججز کے عہدے کے لیے اٹھایا گیا حلف بھی انہیں آئین کے تحفظ اور اس کے دفاع کی ذمہ داری سونپتا ہے۔

اس کیس کے ابتدائی حکم نامے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ قومی اخبارات بشمول معتبر روزنامے ڈان میں 28 جنوری 2021 کو 'ہر قانون ساز کیلئے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری' کی ہیڈ لائن کے تحت یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں جس میں ایک وزیر کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم نے رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے 50 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرواسکیں۔

اسی طرح یکم فروری کو اسی اخبار نے 'ترقیاتی فنڈز کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جس میں وزیراعظم کی جانب سے اپنی پارٹی کے ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے نصف ارب روپے دینے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں