نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار لگ بھگ 5 فیصد افراد کو ڈپریشن کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

اینجلا رسکن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں دیگر علامات کے ساتھ ڈپریشن کی شکایت بہت زیادہ عام ہوتی ہے۔

اس تحقیق میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے 18 سے 81 سال کی عمر کے 1002 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، جن کی حالت پر ستمبر اور اکتوبر 2020 کے دوران نظر رکھی گئی تھی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 48 فیصد افراد کو معتدل سے سنگین ڈپریشن کا سامنا ہوا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے افراد میں یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے جن میں کووڈ کی علامات کا تسلسل برقرار رہے، کم آمدنی والے طبقے اور مجموعی صحت پہلے سے خراب ہو۔

محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے متاثر 20 فیصد امریکی مریضوں میں ڈپریشن کی بیماری بھی پیدا ہوگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے انکشاف ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ شرح کووڈ 19 کے مریضوں میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔

تحقیق میں شامل ہر 5 میں سے ایک مریض نے مختلف علامات کی بدستور موجودگی کو رپورٹ کیا جن میں سب سے عام ہیضہ اور تھکاوٹ جیسی علامات تھیں۔

ایک چوتھائی افراد نے طبی ماہرین سے رجوع کرنے کی بجائے اپنا علاج بازاروں میں دستیاب ادویات سے کرنے کی کوشش کی۔

محققین نے بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ اس وبا کے نتیجے میں دنیا بھر میں دماغی صحت کی سروسز متاثر ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سروسز کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے بہت ضروری ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف انوائرمنل ریسرچ اینڈ پبلک ہیلتھ میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل جنوری 2021 میں سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ہر 3 میں سے ایک بالغ فرد بالخصوص خواتین، جوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کووڈ 19 کے نتیجے میں ذہنی مسائل کا سامنا ہورہا ہے۔

تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی وبا دنیا بھر میں اب بھی تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤنز، قرنطینہ اور سماجی دوری کے اقدامات کیے جارہے ہیں، جس سے لوگوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ان عوامل نے ذہنی دباؤ کو بڑھا کر لوگوں میں ذہنی بے چینی، ڈپریشن اور بے خوابی جیسے مسائل کا باعث بنے ہیں۔

تاہم تحقیق میں بتایا گیا کہ اب تک ان ذہنی مسائل میں اضافے سے متعلق تمام عناصر کے بارے میں ابھی زیادہ علم نہیں ہوسکا تھا۔

تحقیق میں کہا گیا کہ ان عوامل کو سمجھنا ذہنی صحت کے پروگرامز کے لیے انتہائی ضروری ہے، ان عناصر سے ان آبادیوں کی شناخت ہوسکتی ہے، جن میں ذہنی امراض کا خطرہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے اور ان کی مدد کی جاسکتی ہے۔

اس تحقیق کے دوران 68 تحقیقی رپورٹس کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا، جن میں 19 ممالک کے 2 لاکھ 88 ہزار سے زیادہ افراد شامل تھے اور ان عناصر کا تجزیہ کیا گیا جو ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کا خطرہ عام آبادی میں بڑھاتے ہیں۔

محققین نے دریافت کیا کہ خواتین، نوجوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کووڈ، دیہی آبادی اور کووڈ کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد اس بیماری سے جڑے ڈپریشن یا ذہنی بے چینی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ خواتین میں نفسیاتی مسائل کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں