لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو اتنا بتادیں کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا مرگئے، مریم نواز

اپ ڈیٹ 17 فروری 2021
مریم نواز نے اسلام آباد میں لاپتا افراد کے اہلِ خانہ سے ملاقات  کی — تصویر: ٹوئٹر
مریم نواز نے اسلام آباد میں لاپتا افراد کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی — تصویر: ٹوئٹر

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ملک کے اداروں کی مجبوریاں ہوسکتی ہیں لیکن میں ان سے یہی کہتی ہوں کہ آپ کی بھی مائیں بہنیں اور اولادیں ہیں، خدا کے واسطے لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو یہ بتادیں کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا مر گئے۔

اسلام آباد کے ڈی چوک پر لاپتا افراد کے اہلِ خانہ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ لوگ کچھ نہیں کریں گے رو دھو کر چپ ہوجائیں گے لیکن جو قیامت روز ان کے دل پر گزرتی ہے اسے تو قرار آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں صرف اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا انسان کی مجبوریاں اس کے فرض سے بڑی ہوتی ہیں، چاہے آپ سلیکٹڈ ہیں، آپ کو جس طرح بھی اقتدار میں بٹھایا گیا ہے لیکن ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، ریاست کا فرض ہے، یہ آپ کا فرض ہے کہ اگر آپ ان کے پیاروں کو بازیاب نہیں کرسکتے تو آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ جن کے پیارے اس وقت ٹارچر سیلز میں ہیں انہیں بتادیں کہ ان کے پیارے کہاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتا افراد سے متعلق قانون سازی ناگزیر ہے، شیریں مزاری

مریم نواز نے کہا کہ میں ان ماؤں بہنوں، بیٹیوں کی بات سن کر یہ سوچ رہی ہوں کہ اگر کوئی ہمارا پیارا آنکھوں کے سامنے اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے اور خود آپ اسے مٹی کے سپرد کر کے آتے ہیں تو رہتی زندگی تک اس کی یاد اور تکلیف انسان کے دل سے نہیں جاتی لیکن ان انسانوں کا غم کیا غم ہوگا جو روز صبح اٹھ کر اپنے پیاروں کا انتظار کرتے ہیں اور رات کو سوتے وقت تک ان کی آنکھیں منتظر رہتی ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ اگر کسی بچے کو یہ معلوم نہ ہو کہ ہم یتیم ہیں یا ہمارے والد زندہ ہیں، جس ماں کو یہ معلوم نہ ہو کہ میرا بیٹا زندہ ہے یا مر گیا، کسی بیوی کو یہ پتا نہ ہو کہ وہ بیوہ ہے یا اس کا شوہر زندہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات کرنے کو کی جاسکتی ہے لیکن ان متاثرین کے دلوں کے کیا احساسات ہیں اور کئی سالوں سے ان کے دلوں پر کیا قیامت گزر رہی ہے، اتنے سالوں سے یہ لوگ روزانہ اسی کرب سے گزرتے ہیں۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ اپنے گھروں میں باعزت طریقے سے رہنے والے افراد ہیں اور یہ اسلام آباد کی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت ملک میں کوئی لاپتا شخص نہیں چاہتی، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کا احساس اور ادراک ہے کہ پہلے انسان کی باتیں بہت بڑی بڑی ہوتی ہیں لیکن جب اقتدار مل جاتا ہے تو اس کی ترجیحات بدل جاتی ہیں اور مجبوریاں سامنے آجاتی ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ میں عمران خان کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وزیراعظم ہاؤس یہاں سے فاصلے پر نہیں شاید 5 منٹ کا راستہ ہے اور ان بچیوں نے مجھے بتایا کہ یہ ایک ہفتے سے یہاں موجود ہیں تو آپ نے ایجنسیز کو جواب نہیں دینا، آپ اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں، یہ 22 کروڑ عوام آپ کی ذمہ داری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے، آپ کے اختیار میں کچھ نہیں لیکن آپ ان کے سروں پر ہاتھ تو رکھ سکتے ہیں یا آپ کو کہنے کے لیے صرف یہ بات ملی ہے کہ میں لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوں گا، یہ لاشیں نہیں زندہ لاشیں ہیں لیکن جیتے جاگتے لوگ ہیں، آئیں اور ان کی بات سنیں۔

مریم نواز نے کہا کہ نہ آپ خود اس قسم کے بیانات جاری کیا کریں کہ میں لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوتا اور جب مجبور لوگ احتجاج کرنے ڈی چوک پر آتے ہیں تو وزرا کو بھی ایسے بیانات دینے سے روکا کریں کہ ہمارے پاس کچھ ایکسپائر شیل رکھے ہوئے انہیں ٹیسٹ کر کے دیکھ رہے ہیں، کیا آپ کے پاس دل ہے؟ آپ کو خدا کا خوف نہیں آتا؟

یہ بھی پڑھیں: جبری لاپتا افراد میں سے 3 ہزار 800 کا سراغ لگا لیا، انکوائری کمیشن

انہوں نے کہا کہ آپ کی یہ باتیں آپ کی قبر تک آپ کا پیچھا کریں گی اور ایک وفاقی وزیر جن کا میں نام بھی لینا نہیں چاہتی، انہوں نے یہ کہا کہ وہ بلوچستان اور پنجاب کا موازنہ کررہے تھے خدا کا واسطہ ہے، مظلوم کا کوئی صوبہ نہیں ہوتا، سندھی پنجابی، کے پی کے یا بلوچستان کا بھی کوئی ہو، مظلوم مظلوم ہوتا ہے اس کا کوئی صوبہ نہیں ہوتا ان کے زخم پر نمک نہ چھڑکیں۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ کم از کم آپ اپنے وزرا کو منع کریں کہ ان کے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں اور آئیں ان کے سر پر ہاتھ رکھیں۔

مریم نواز نے کہا کہ میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی یہی کہنا چاہتی ہوں کہ یہ آپ ہی کے ملک کے لوگ ہیں، آپ ہی کی مائیں بہنیں بیٹیاں ہیں، آئین ان کے ساتھ بات کریں جو مسئلہ حل ہوسکتا ہے وہ حل کریں، جو افراد زندہ ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کریں اور جو زندہ نہیں انہیں کم از کم ان کی موت کی اطلاع دے دیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ روزِ محشر کو یاد رکھیں، اللہ تعالیٰ کا خوف رکھیں، حکمراں کی پوچھ بہت سخت ہے، آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مثالیں دیتے ہیں نہ تو ان کے دورِ حکومت کو یاد رکھیں اور پھر اپنے اوپر نظر دوڑائیں۔

مزید پڑھیں: عدالت کا ایک مرتبہ پھر ’لاپتا‘ افراد کے معاملے پر ٹاسک فورس کو ہر ماہ ملنے کا حکم

لاپتا افراد کے کمیشن کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ یہ کمیشن آنکھوں کو دھول جھونکنے کے مترادف ہوتے ہیں یہ صرف وقت لینے کا طریقہ ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات نہ اور اب اظہار یکجہتی کے لیے آنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں اس وقت سوائے اظہار یکجہتی کے کچھ نہیں کرسکتی، میں صرف انہیں یہ احساس دلاسکتی ہیں کہ یہ اکیلے نہیں، بلوچستان زخمی صوبہ ہے، ان کی شکایات ٹھیک ہیں اگر کوئی ناراض ہے تو اسے دھکا دے کر پرے نہیں کرتے بلکہ ساتھ ملانے کی کوششیں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی جماعت کی بات کرتی ہوں کہ اگر اقتدار ملنے کے بعد آپ اتنے مجبور ہوجائیں کہ آپ اپنے بنیادی فرض کو ادا نہیں کرسکتے تو اقتدار سے اقتدار میں نہ ہونا اچھا ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ ملک کی عدالتیں کھلی ہوئی ہیں اگر آپ شو آف ہینڈز اور اوپن بیلٹ کے مسئلے کو عدالتوں میں لے جاسکتے ہیں تو ان کے مقدمات بھی عدالت میں چلائیں تا کہ لوگوں کو پتا چلے کہ واقعی قصوروار ہیں یا آپ سے غلطی ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے بلوچستان سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ لاپتا افراد میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کچھ نہیں کیا اور غلطی ہوگئی ہے اور وہ اگر اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں تو بس اس کا بتادیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

عرفان Feb 17, 2021 04:37pm
آپ کے ابو نے بتایا تھا؟