ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی سے متعلق قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں، ترجمان پاک فوج

اپ ڈیٹ 22 فروری 2021
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار—تصویر: ڈان نیوز
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار—تصویر: ڈان نیوز

پاک فوج کے ترجمان اور شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی سے متعلق سوشل میڈیا پر زیرگردش قیاس آرائیوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی صداقت نہیں، فوج میں بطور ادارہ تعیناتیاں اتنی کم مدتی نہیں ہوتی، ہر کوئی اپنی مدت پوری کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عام طور پر فوج میں کسی ادارے کے سربراہ کے طور پر تعیناتی 2 سال کے لیے کی جاتی ہے، میری گزارش ہوگی کہ اس طرح کی قیاس آرائیاں مزید نہ کی جائیں۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے بتایا کہ آج 22 فروری ہے اور آپریشن ردالفساد کے 4 سال مکمل ہوگئے ہیں، اس پریس کانفرنس کا مقصد اس آپریشن کا تفصیلی جائزہ اور ثمرات پر کچھ روشنی ڈالنا ہے اور ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال سے آگاہی دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 22 فروری 2017 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت اور سربراہی میں آپریشن ردالفسار کا آغاز کیا گیا، اس آپریشن کی بنیادی اہمیت جو اسے دیگر تمام چیزوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ آپریشن کسی مخصوص علاقے پر مبنی نہیں تھا بلکہ اس کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا۔

’آپریشن ردالفساد کا مقصد پرامن اور مستحکم پاکستان’

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اس کا اسٹریٹجک مقصد ایک پرامن، مستحکم پاکستان تھا اور ہے، جس میں عوام کا ریاست پر اعتماد بحال ہو اور دہشت گردوں اور شرپسند عناصر کی آزادی کو سلب کرکے انہیں مکمل طور پر غیر مؤثر کردیا جائے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ردالفساد کا بنیادی محور عوام ہیں تاہم جس وقت مسلح فورس دہشت گردوں سے لڑ رہی ہوتی ہیں تو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معاشرے کی طاقت سے شکست دی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں منظم دہشت گردوں کا کوئی اسٹرکچر موجود نہیں، ترجمان پاک فوج

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ اسی مناسبت سے ہر پاکستانی ناصرف اس آپریشن کا حصہ ہے بلکہ پوری قوم کی سوچ کے تحت ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے۔

2017 میں آپریشن شروع کرنے سے متعلق انہوں نے بتایا کہ یہ آپریشن دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا جب دہشت گردوں نے قبائلی اضلاع میں اپنے انفرا اسٹرکچر کی تباہی اور مختلف آپریشن میں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد پاکستان کے طول و عرض میں پناہ لینے کی کوشش کی، دہشت گرد، ان کے سہولت کار شہروں، قصبوں، دیہات، اسکولوں، مدارس، عبادت گاہوں، کاروباری مراکز حتیٰ کہ بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانا کر زندگی کو مفلوج کرنے کی ناکام کوششوں میں بھی مصروف تھے۔

’4 مراحل میں لڑائی لڑی‘

انہوں نے کہا کہ ایسے میں اس ماحول کو دیکھتے ہوئے ٹو پرونگ اسٹریجی کے تحت شروع کیا گیا، جس میں ایک پرونگ انسداد دہشت گردی (کاؤنٹر ٹیررازم) کو دیکھتا تھا جبکہ دوسرا انسداد پرتشدد انتہا پسندی (کاؤنٹر وائلنٹ ایکسٹریم ازم) کو دیکھتا تھا، جہاں تک انسداد دہشت گردی پرونگ کا تعلق ہے تو اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کی صوابدید ہے، اس کے ساتھ مؤثر بارڈر منیجمنٹ سسٹم کے ذریعے ویسٹرن زون کا مکمل استحکام اور ملک بھر میں دہشت گردوں کی حمایت کا خاتمہ شامل تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے انسداد پرتشدد انتہا پسندی کی بات کریں تو یہ واضح ہے کہ ایک نظریے کا مقابلہ صرف اس سے برتر نظریے یا دلیل کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے، اسی تناظر میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، قبائلی علاقوں کی قومی دھارے میں شمولیت، تعلیمی مدرسہ اور پولیس ریفارم میں حکومتی کاوشوں میں بھرپور معاونت کے ذریعے شدت پسندی کے عوامل پر قابو پانا شامل تھا۔

آپریشن کے تفصیلی جائزے سے متعلق انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو بڑی حکمت عملی تھی تو اسے 4 الفاظ میں بیان کرسکتا ہوں جو ’کلیئر، بولڈ، بلٹ اینڈ ٹرانسفر‘ تھے، یہ وہ 4 مراحل تھے جس کے تحت ہم نے یہ لڑائی لڑی۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 2010 سے اگر 2017 تک دیکھیں تو کلیئر اور بولڈ مرحلے کے تحت بڑے آپریشن کے بعد مختلف علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کرایا جاچکا تھا اور قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال ہورہی تھی۔

دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ ردالفساد بلٹ اینڈ ٹرانفسر مرحلے کا آغاز ہے، اس دوران مشکل سے حاصل ہونے والے فوائد کو ناقابل واپسی بنانا ہماری ذمہ داری تھی اور یہی چیز اصل میں دہشت گردی کے خلاف کامیابی کا حقیقی پیمانہ بھی ہے، کائنیٹک آپریشن کے ذریعے علاقہ صاف کرنے کے بعد سماجی و معاشی ترقی اور سول اداروں کی عمل داری دائمی امن کی جانب درست اقدام ہے اور اب اس کا اعتراف دنیا بھی کر رہی ہے۔

3 لاکھ 75 ہزار سے زائد آپریشن

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 4 برسوں میں آپریشن ردالفساد کے تحت ملک بھر میں 3 لاکھ 75 ہزار سے زائد انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے گئے جس میں سی ٹی ڈی، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی، پولیس، ایف سی اور رینجرز نے بھرپور کردار ادا کیا، جس میں پنجاب میں 34 ہزار سے زائد، سندھ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد، بلوچستان میں 80 ہزار سے زائد اور خیبرپختونخوا میں 92 ہزار سے زائد خفیہ بنیادوں پر آپریشن شامل ہیں، ان میں چند بڑے آئی بی او بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے شہری دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملی اور بہت سے دہشت گرد نیٹ ورک کو ختم کیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بات پر زور دیا کہ خفیہ ایجنسیوں نے انتھک محنت اور قربانیوں سے کئی بڑے بڑے دہشت گردی کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا، ان 4 برسوں میں 5 ہزار سے زائد تھریٹ جاری کی گئیں، آپریشن ردالفسار کے دوران خیبر 4 آپریشن بھی کیا گیا جس کا مقصد راجگال وادی کو کلیئر کرانا اور اس جانب پاک افغان سرحد کو محفوظ کرنا تھا جبکہ شمالی وزیرستان میں گزشتہ برس آپریشن دواتوئی کیا گیا اور اس دوران ساڑھے 7سو اسکوائر کلومیٹر کے علاقے پر ریاست کی رٹ بحال کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کے خلاف بہترین دفاع آئسولیشن سے زیادہ باہمی تعاون ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران 72 ہزار سے زائد غیرقانون اسلحہ اور 50 لاکھ سے زائد گولہ بارود ملک بھر سے برآمد کیا گیا، اس کے علاوہ 2017 سے 2021 کے دوران ملک بھر میں دہشتگردی کے ساڑھے 18 سو واقعات رونما ہوئے، پاک افغان سرحد پر 1684 سرحد پر حملے کے واقعات ہوئے، ان تمام واقعات اور آپریشنز کے دوران 353 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا اور سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ 2017 سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور توسیع کے لیے بہت کوشش کی گئی، ایف سی کے 58 نئے ونگز قائم کیے جاچکے ہیں جبکہ مزید 15 کا قیام عمل میں لایا جانا باقی ہے، مزید یہ کہ سرحدی انتظام کے تحت پاک افغان سرحد پر باڑ کا کام 84 فیصد اور پاک ایران سرحد پر 43 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ بارڈر منیجمنٹ کی اب مرکزی ایجنسی وزارت داخلہ ہے۔

آپریشن ردالفساد سے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس دوران ڈی مائننگ کے دوران 72 کلومیٹر سے زائد کا علاقہ کلیئر کیا جاچکا ہے، یہ بہت سست عمل ہے اور اس دوران ہمارے 2 سپاہی شہید اور 119 زخمی ہوئے ہیں لیکن اس کی پیش رفت اچھی چل رہی ہے اور ہم 48 ہزار مائن برآمد کرچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 4 برسوں میں سیکیورٹی ملک بھر میں 37 ہزار 428 سے زائد پولیس کے جوانوں کو تربیت دی ہے جبکہ اگلے 6 ماہ میں تقریباً 4 ہزار کو مزید تربیت دے کر قبائلی اضلاع میں پولیس فورس میں شامل کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں 717 کیسز بھیجے گئے جس میں 344 کو سزائے موت دی گئی جس میں سے 58 کی سزا پر عملدرآمد ہوچکا، اس کے علاوہ 106 کو عمر قید اور 195 کو مختلف دورانیے کی قید کی سزا دی گئی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 2017 سے اب تک 1200 سے زائد قوم پرست شدت پسندوں نے ہتھیار ڈالے، شدت پسند مواد پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے بیانیے اور اس کی تشہیر کو ناکام بنایا گیا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ وفاق المدارس اور علما کی باہمی مشاورت سے 1800 سے زائد مذہبی رہنماؤں نے پیغام پاکستان کے نام سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف یک زبان ہوکر ایک انتہائی مؤثر بیانیہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن ردالفساد کے تحت ملک دشمن ایجنسیوں کی پاکستان مخالف سازشوں کو بے نقاب کیا اور خاص طور پر دہشت گردوں کی معاونت اور تربیت کے حوالے سے ناقابل تردید ثبوت دنیا کے سامنے رکھے۔

پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم نے بطور قوم کورونا وائرس کا بھی دانشمندی سے مقابلہ کیا، افواج پاکستان کو جو چین کی پی ایل اے نے ویکسین دی تھی وہ بھی قومی ویکسین مہم میں فراہم کردی گئی ہیں، اسی دوران پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی کا چیلنج بھی لاحق ہوا، جو ٹڈی دل کی صورت میں تھا، جس میں جہاں کارروائی کی ضرورت تھی مسلح افواج نے کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں جب ہم ان قدرتی آفات سے نبردآزما تھے تب بھی آپریشن ردالفساد نہیں رکا اور تمام معاملات چلتے رہے۔

اس موقع پر انہوں نے میڈیا کے مثبت کردار کی بھی تعریف کی اور کہا کہ اس دوران میڈیا نے تمام قومی سلامتی سے متعلق تمام معاملات کو بہت متحرک طریقے سے کور کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آئندہ ماہ یوم پاکستان آرہا ہے، اس مرتبہ بھرپور قومی جذبے کے ساتھ پریڈ کا انعقاد ہوگا اور مسلح افواج اس میں شرکت کریں گی جبکہ اس مرتبہ یوم پاکستان کا پیغام ہے ’ایک قوم ایک منزل‘۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے لیکن بہت کچھ حاصل کرنا باقی ہے اور وہ ہم ایک، اکٹھے رہ کر حاصل کرسکتے ہیں اور عوام کے تعاون سے ہر چیلنج پر قابو پائیں گے۔

سوال و جواب

اس موقع پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ردالفساد صرف ایک فوجی آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا اور نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت بہت حد تک ہوچکی ہے اور کچھ شعبے ہیں ان پر کام ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے کی جانب سے جو کام کرنا تھا وہ ہوا ہے اور حکومت نے جو کام کرنا تھا وہ ہو رہا ہے اور جلد مکمل ہوجائے گا اور کام مثبت طرز میں ہورہا ہے اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر لابی کرنے والا بھارتی نیٹ ورک بے نقاب

افغانستان کے امن عمل سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل وزارت خارجہ کے دائرے میں آتا ہے اس لیے تفصیلی بات نہیں کروں گا لیکن افغانستان میں امن سے پاکستان میں امن ہوگا اور پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور کرے گا لیکن وہاں کے اقدامات انہوں نے خود کرنا ہے اور امریکا کی نئی انتظامیہ کے اقدامات سے متعلق مثبت ہیں کہ بہتری ہوگی۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ مختلف آپریشنز کے دوران 450 فورسز کے اہلکار شہید ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری نے ہمارے ڈوزیئر کا جواب مثبت دیا اور کئی عالمی تنظیموں نے بیانات اور دستاویزات دی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے اور ان کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے اور مزید کام کرنا ہے، اس کے لیے نئے اقدامات کرنے ہیں اور ٹیکنالوجی کو متعارف کروانا ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ سوشل میڈیا میں پروپیگنڈا کے حوالے سے مواد پھیلا ہوا ہے اور دہشت گردی کو ابھارنے والے مواد اور لوگوں کو روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں اور جلد ہی کوئی قانون بھی آئے گا، حکومت بھی کام کر رہیں اور یہ مزید فعال ہوگا۔

ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کی موجودگی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے جو نکات تھے ان پر اچھا خاصا کام ہوا ہے لیکن پاکستان نے پچھلے 3 سے 4 سال میں جو کام ہوا ہے اس کی توثیق ہر سطح پر ہوئی ہے اور اس حوالے سے ہم بہت مثبت ہیں۔

میرعلی میں این جی اوز کے اراکین پر ہونے والے حملے پر انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھرپور کارروائی کر رہے ہیں لیکن ہر واقعے کو دہشت گردی سے نہیں جوڑنا چاہیے بلکہ امن و امان کے مسائل بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف واقعات پر مخصوص نہیں ہونا چاہیے بلکہ مجموعی حالات کو دیکھنا چاہیے، قبائلی علاقوں میں مکمل حالات سے متعلق وقت لگے گا۔

اس موقع پر ایک صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے بہت سی چیزیں زیرگردش ہیں اور جنرل آصف کا نام بھی آرہا ہے اور جنرل فیض کے حوالے سے بھی بات ہورہی ہے تو کیا مستقبل قریب میں اس حوالے سے کوئی امکان ہے، جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ بے بنیاد قیاس آرائیاں ہیں، اس میں کوئی صداقت نہیں، فوج میں بطور ادارہ تعیناتیاں اتنی کم مدتی نہیں ہوتی، ہر کوئی اپنی مدت پوری کرتا ہے اور عام طور پر فوج میں کسی ادارے کے سربراہ کے طور پر تعیناتی 2 سال کے لیے کی جاتی ہے، میری گزارش ہوگی کہ اس طرح کی قیاس آرائیاں مزید نہ کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف فوج اور پولیس نے قربانیاں نہیں دیں بلکہ عوام نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اس کا اعتراف کیا جاتا ہے اور اس حوالے امدادی کام متعلقہ صوبوں کی حکومتوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشقیں نئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے کی جاتی ہیں اور بہت کامیاب جارہی ہیں، تربیت اور اسلحے سے متعلق ہماری تیاری کے نتائج مثبت آرہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: محمد زبیر نے نواز شریف،مریم نواز سے متعلق آرمی چیف سے دو ملاقاتیں کیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

بھارتی میڈیا میں پاکستان مخالف پروگراموں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کو نظر انداز نہیں کیا جاتا ہے لیکن اگر ہر ایک کو جواب دیا جاتا اور پھر ڈس انفو لیب نے انکشافات کیے ہیں اور اس سے کریڈیبلٹی پر واضح سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور جہاں ضروری ہو ہم جواب دیتے ہیں اور مستقبل قریب میں ہم اس طرح کے معاملات پر قابو پالیں گے۔

چین سے فوج کو ملنے والی کووڈ-19 ویکسین پر بھی سوال کیا گیا اور انہوں نے کہا کہ میڈیا بھی فرنٹ لائن پر ہے اور کس کو دینا ہے یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے اور سب کو دیا جائے گا، جہاں تعلق فوج کا تعلق ہے تو فوج اپنا کام کر رہی ہے اور کرتی رہے گی اور اسی لیے فیصلہ کیا گیا کہ ہم سے زیادہ مستحق وہ ہیں جو خطرے میں کام کرتے ہیں اور آئندہ آنے والی کھیپ میں فوج اور میڈیا سب شامل ہوگا۔

دہشت گردوں کی واپسی کے طریقہ کار پر انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو مختلف مراکز میں مختلف سائیکالوجیکل اور موٹیویشنل طرز پر کام کیا گیا اور اس کا مثبت جواب آیا اور انہیں ڈرائیونگ اور مختلف ہنر سکھا دیے گئے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ گوادر کا کرکٹ اسٹیڈیم دنیا کا خوب صورت ترین میدان ہے لیکن بین الاقوامی میچوں کے لیے الگ تقاضے ہوتے ہیں اور ہوسکے تو پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کا کوئی میچ رواں سیزن یا مستقبل میں کبھی منعقد کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں