سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما حلیم عادل شیخ نے الزام لگایا ہے کہ حکومت سندھ نے سینٹرل جیل میں اپنے 50 سے 60 مجرمان، قیدیوں اور غنڈوں کے ذریعے ان پر حملہ کراویا ہے۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ حکومت سندھ جیل میں تحریک انصاف کے کارکنوں پر تشدد اور انہیں ہراساں کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: حلیم عادل شیخ کا پی پی پی رہنماؤں پر لاک اپ میں سانپ چھوڑنے کا الزام

ایک ویڈیو بیان میں حلیم عادل شیخ نے کہا کہ انہیں جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس لیے وہ کراچی کے جناح ہسپتال آئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکن سمیر میر شیخ، امجد، حفیظ چانڈیو اور دیگر تین افراد کو سینٹرل جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’مجھے بتایا گیا کہ میری طرح سمیر میر شیخ کو پھانسی گھاٹ میں رکھا جائے گا اور انہیں غیر انسانی سلوک کا سامنا ہے‘۔

حلیم عادل شیخ نے مزید کہا کہ 7 فروری سے میرے پانچ سینئر دوستوں کو ملیر ڈسٹرکٹ جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جن میں اقبال شاہ، عثمان بگٹی، عزیز بھٹی، راؤ یوسف، خلیل محسود کے بیٹے بھی شامل ہیں۔

سمیر شیخ سے متعلق بات کرتے ہوئے حلیم عادل شیخ نے دعویٰ کیا کہ ایک پولیس افسر نے انہیں بتایا کہ سمیر میر شیخ کے خلاف انتہائی سخت رویہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حلیم عادل شیخ کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کے ذمہ داران بہت خوش ہیں، سعید غنی

انہوں نے سوال اٹھایا کہ 'کیا یہ اس کا قصور ہے کہ وہ پی پی پی کے اندر موجود چوروں اور لٹیروں کو جانتا ہے؟'

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سمیر میر شیخ کو فوری رہا کیا جائے۔

دریں اثنا سمندری امور کے وزیر علی زیدی نے کہا کہ حلیم عادل شیخ کو 'سینٹرل جیل کراچی کے اندر پی پی کے 50 غنڈوں' کے حملے کے بعد ہسپتال داخل کرایا گیا ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ معاملہ اٹھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔

انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'یہ مناسب وقت ہے کہ آئی جی پی سندھ، ہوم سیکریٹری اور نااہل چیف سیکریٹری کے خلاف کارروائی کی جائے'۔

گورنر سندھ کی آئی جی سندھ پر تنقید

علاوہ ازیں گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس مشتاق مہر پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا سختی سے نوٹس لیں گے۔

انہوں نے پریس کانفرنس میں سندھ پولیس کے عہدیداروں کا نام لیے بغیر کہا کہ کسی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق یہاں کچھ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، حلیم عادل شیخ کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ کل آپ یا میرے ساتھ ہوسکتا ہے۔

عمران اسمٰعیل نے دعویٰ کیا کہ حلیم عادل شیخ کو 'دوسرے لوگوں کے ساتھ رات کے وقت بھی قید رکھا گیا اور مارا پیٹا گیا'۔

مزید پڑھیں: ملیر ضمنی انتخاب: 'ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی' پر پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ زیر حراست

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا صوبائی حکومت کی یہ کوشش تھی کہ ’دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کریں کہ اگر وہ حکومت سندھ کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کے ساتھ یہ کیا جائے گا‘۔

گورنر سندھ نے کہا کہ ’میں آئی جی صاحب کو ایک واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس انصاف پر مبنی فیصلہ لینے کا یہ آخری موقع ہے‘۔

عمران اسمٰعیل نے بتایا کہ انہوں نے کل صوبائی پولیس چیف کو فون کیا جنہوں نے بتایا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ قانون کے مطابق ہے۔

حلیم عادل شیخ اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے جان بوجھ کر کسی کا نام شامل نہیں کیا تاکہ وہ جس کو چاہیں گرفتار کرسکیں۔

عمران اسمٰعیل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اپوزیشن پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صوبائی اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین کے لیے پولیس سیکیورٹی واپس لے لی گئی اور وہ خود ہی اپنا بندوبست کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

کسی نے ہاتھ لگایا اور نہ کوئی تھپڑ یا پتھر مارا، جیل حکام

دوسری جانب سینٹرل جیل کراچی میں پی ٹی آئی رہنما اورپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ پر مبینہ تشدد کے معاملے پر سینٹرل جیل سپرنٹنڈنٹ حسن سہتو نے کہا کہ انہیں نہ کسی نے ہاتھ لگایا اور نہ کوئی تھپڑ یا پتھر مارا۔

حسن سہتو نے کہا کہ حلیم عادل شیخ کو ہفتے کی شام 4 بجے سینٹرل جیل کراچی منتقل کیا گیا اور جس وقت انہیں جیل منتقل کیا گیا اس وقت جیل میں معمول کے کام ہو رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ حلیم عادل شیخ کو محمد علی بی کلاس وارڈ منتقل کیا جا رہا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

سینٹرل جیل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ حلیم عادل شیخ جیل عملے کے ہمراہ انتظار گاہ سے گزر رہے تھے جہاں کچھ قیدوں نے نعرے بازی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ حلیم عادل شیخ کو 26 سکینڈ میں واپس سپرنٹنڈنٹ آفس منتقل کردیا گیا اور کچھ لمحے بعد رکن صوبائی اسمبلی کو سیکیورٹی وارڈ منتقل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ حلیم عادل شیخ کو سیکیورٹی وارڈ بی کلاس کی تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

حسن سہتو نے بتایا کہ حلیم عادل شیخ نے جیل سپرٹینڈنٹ کو تحریری درخواست دی۔

یہ بھی پڑھیں: حلیم عادل شیخ کا سندھ حکومت پر انتقامی کارروائی کا الزام

حلیم عادل شیخ نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ بلڈ پریشر اور انجائنا کے مریض ہیں اور این آئی سی وی ڈی میں ان کا علاج چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹرز نے اینجوگرافی کرانے کا کہا تھا اور کچھ دیر پہلے جیل ڈاکٹر نے بھی مجھے چیک کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میری طبیعت بگڑ رہی ہے اس لیے مجھے فوری این آئی سی وی ڈی بھیجا جائے تاکہ میرا علاج ہو سکے۔

سینٹرل جیل سپرنٹنڈنٹ حسن سہتو نے بتایا کہ جیل انتظامیہ نے حلیم عادل شیخ کو این آئی وی سی ڈی منتقل کردیا۔

خیال رہے کہ حلیم عادل شیخ کو صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس-88 ملیر میں ضمنی انتخاب کے موقع پر کشیدگی پھیلانے، فائرنگ، اقدام قتل اور دہشت گردی کے الزامات پر گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے 25 فروری تک ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا اور تفتیشی افسر کو ہدایت کی تھی کہ ملزمان کو اگلی سماعت میں تفتیشی رپورٹ کے ساتھ پیش کریں۔

حلیم عادل شیخ سمیت دیگر زیر حراست افراد کے خلاف میمن گوٹھ اور گڈاپ ٹاؤن تھانوں میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 147، 148، 149، 170، 171، 186، 114، 324، 353، 427 اور 337 ایچ کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت دو الگ الگ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں