برطانوی کمپنی براڈشیٹ ایل ایل سی نے شریف فیملی کے ایون فیلڈ پراپرٹی سے متعلق دعویٰ واپس لینے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے اہل خانہ کو قانونی اخراجات کی مد میں 20 ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی کردی۔

براڈشیٹ ایل ایل سی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ 2000 میں پاکستانی شہریوں کے غیر ملکی اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے معاہدہ کیا تھا لیکن یہ معاہدہ 2003 میں منسوخ کردیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں جب سے برطانوی عدالت نے کمپنی کو پاکستانی حکومت کی جانب سے 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا فیصلہ سنایا اس وقت سے کمپنی اپنی ادائیگی کو محفوظ کرنے کے لیے متعدد کوششیں کرچکی ہے اور حالیہ ادائیگی بھی اسی سلسلے کی تازہ ترین پیش رفت ہے۔

مزید پڑھیں: براڈ شیٹ معاملے میں کی گئی ادائیگی، ماضی کی ڈیلز کی قیمت ہے، شہزاد اکبر

ثالثی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ پاکستان اور قومی احتساب بیورو(نیب) نے غلط طریقے سے براڈ شیٹ کے ساتھ کیا گیا اثاثہ برآمدگی معاہدہ ختم کیا اور کمپنی کو نقصان کی ادائیگی کیے جانے کا فیصلہ سنایا۔

اس فیصلے کے وقت سے کمپنی اپنی خدمات کے لیے رقم کی ادائیگی کو محفوظ کرنے کے لیے برطانیہ میں ایسے متعدد اداروں کو ہدف بناتی رہی ہے جو مبینہ طور پر پاکستانی حکومت سے منسلک ہوں۔

اسی دوران کمپنی نے ایون فیلڈ ہاؤس کے 4 فلیٹوں پر اپنا دعویٰ کیا، براڈ شیٹ نے پاکستانی حکومت کو خط لکھ کر نیب پر واجب الادا رقم حاصل کرنے کے لیے 'پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اثاثے ضبط' کرنے بھی دھمکی دی تھی۔

اسی سلسلے میں 19 جون 2020 کو براڈ شیٹ نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ حکومت پاکستان اور نیب پر واجب الادا رقم کی برآمدگی کے طور پر ایون فیلڈ ہاؤس کے اپارٹمنٹس منسلک کرنے کا حکم جاری کیا جائے گا۔

کمپنی نے یہ دلیل دی تھی کہ جولائی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے تناظر میں نیب ان اپارٹمنٹس سے مستفید ہونا قرار پایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی جج کی براڈ شیٹ فیصلے میں نیب کی سرزنش

تاہم شریف خاندان کے وکیل نے اس دعوے کا مقابلہ کیا اور کہا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ حکومت پاکستان یا نیب کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں کسی فائدے کا حقدار نہیں ٹھہراتا۔

بعدازاں براڈ شیٹ ایک تیسرے فریق کے حکم کے تحت اپنی ادائیگی کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوگئی جس کے تحت برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے بینک اکاؤنٹ سے کمپنی کو 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔

اس پیش رفت سے چند ہفتوں قبل 2 دسمبر 2020 کو کمپنی کے وکیل نے ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپنا دعویٰ واپس لے لیا تھا۔

عدالت نے اسی روز ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو ڈسچارج کرنے کا حکم دیا تھا، نتیجتاً براڈ شیٹ شریف خاندان کو قانونی اخراجات کی ادائیگی کی پابند ہوگئی تھی کیوں سول کیسز کے رائج عمومی قواعد کے مطابق کیس ہارنے والا فریق جیتنے والے کو قانونی اخراجات ادا کرتا ہے۔

حکومت نے گزشتہ برس براڈشیٹ ایل ایل سی کو 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدے کی تحقیقات کا حکم

براڈشیٹ کمپنی نے پاکستانی حکومت سے رقم وصول کرنے کے بعد ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر اپنا دعویٰ واپس لے لیا، لیکن شریف خاندان کو قانونی اخراجات کی مد میں 20 ہزار پاؤنڈ ادا کردیے۔

ڈان کو موصول دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ براڈشیٹ ایل ایل سی نے شریف فیملی کو 20 ہزار پاؤنڈ ادا کیے، جبکہ شریف خاندان کے قانونی نمائندوں نے بھی براڈ شیٹ سے مذکورہ رقم موصول ہونے کی تصدیق کی۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے براڈشیٹ کی طرف سے ادائیگی کو ’جھوٹوں کے منہ پر ایک اور زبردست طمانچہ‘ قرار دیا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’براڈشیٹ کو لندن اپارٹمنٹس کے بارے میں سوالات اٹھانے اور پھر عدالت سے بھاگنے کے لیے نواز شریف کے وکلا کو 45 لاکھ روپے ادا کرنا پڑے‘۔

یہ بھی پڑھیں: براڈ شیٹ اسکینڈل پر بنائی گئی کمیٹی انکشافات کرے گی، شبلی فراز

مریم نواز نے کہا کہ ’جھوٹ اور دھوکہ دہی کے کھیل میں اس طرح کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں، کوئی شرم آتی ہے؟‘

نائب صدر مسلم لیگ نے کہا کہ ’براڈشیٹ تو اپنے جھوٹے الزامات پر عدالت میں عزت افزائی کروا چکی ہے مگر ابھی ان لوگوں کا احتساب باقی ہے جو پاکستانی عوام کا پیسہ اپنی ذاتی انا کی جنگ میں جھونکتے رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ حکومت چھپ چھپ کہ براڈشیٹ والوں سے ملتی تھی اور وہ اپنا حصہ مانگتے تھے، اب سب حقائق عوام کے سامنے آئیں گے۔

واضح رہے کہ 27 جنوری کو وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد جو ایک رکنی کمیشن قائم کیا گیا اس کا وسیع دائرہ اختیار نہ صرف براڈشیٹ تنازع کے معاملات کی تحقیقات کرنا ہے بلکہ اس بات پر بھی غور کرنا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں چھپائے گئے اثاثے برآمد کرنے کی بے دل اور غلط سمت کوششوں کی وجہ سے ریاست کو اتنا بڑا نقصان کیوں ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں