'امریکا طالبان معاہدے کی ذمہ داری افغان حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی'

اپ ڈیٹ 25 فروری 2021
کابل نے امریکا-طالبان کے معاہدے کی وجہ سے نہیں بلکہ گرینڈ جرگہ کے فیصلے کے مطابق طالبان قیدیوں کو رہا کیا، رکن افغان مذاکراتی ٹیم  - فائل فوٹو:اے پی
کابل نے امریکا-طالبان کے معاہدے کی وجہ سے نہیں بلکہ گرینڈ جرگہ کے فیصلے کے مطابق طالبان قیدیوں کو رہا کیا، رکن افغان مذاکراتی ٹیم - فائل فوٹو:اے پی

افغان حکومت کے طالبان سے مذاکرات کے لیے دوحہ میں موجود مذاکراتی ٹیم کے رکن کا کہنا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی ذمہ داری افغان حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ کابل نے امریکا طالبان کے معاہدے کی وجہ سے نہیں بلکہ گرینڈ جرگہ کے فیصلے کے مطابق 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کیا، 'یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے قیدیوں کو رہا نہیں کیا'۔

دوسری جانب طالبان نے افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ گزشتہ سال طے پانے والے معاہدے پر عمل نہیں کر رہے جس میں قیدیوں کی رہائی اور غیر ملکی افواج کی واپسی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان کا وفد بین الافغان مذاکرات کیلئے قطر پہنچ گیا

دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ قطری دارالحکومت میں انٹرا افغان بات چیت کے آغاز کے تین ماہ بعد تمام طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔

صدر اشرف غنی کی سربراہی میں افغان حکومت پر تاخیر کا الزام عائد کرتے ہوئے طالبان عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'اسے (پانچ ماہ سے زیادہ) عرصہ گزر چکا ہے اور انہوں نے ایک بھی قیدی رہا نہیں کیا ہے'۔

یہ مؤقف ایسے وقت میں سامنے آیا جب افغان مسلح گروہ نے ہفتوں کی تاخیر اور امریکی قیادت میں تبدیلی کے بعد منگل کو دوحہ میں افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔

طالبان عہدیدار نے بقیہ امریکی افواج کے انخلا میں تاخیر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کیونکہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی امریکی انتظامیہ فروری 2020 میں ہونے والے دوحہ معاہدے پر نظرثانی کر رہی ہے۔

جو بائیڈن نے تنازع کے سیاسی حل کی حمایت کی ہے لیکن وہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اتفاق رائے سے فوجیوں کی واپسی کی آخری تاریخ کا احترام نہیں کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت اور طالبان مذاکرات میں اہم پیشرفت، ابتدائی معاہدے کا اعلان

طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ 'ہمارا امریکا کی حکومت کے ساتھ معاہدہ ہے اور ہم ان سے معاہدے کی پاسداری کی توقع کرتے ہیں، طالبان تحریری معاہدے کے پابند ہیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی ایسا ہی کرے گا'۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے طالبان نے ایک 'کھلا خط' جاری کیا تھا جس میں واشنگٹن سے اپنے فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

'اپنے وعدے پر قائم ہیں'

حالیہ ہفتوں میں نیٹو اور امریکی حکام نے طالبان کے القاعدہ اور داعش جیسے سخت گیر مسلح گروہوں کے درمیان مبینہ تعلقات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔

دوحہ معاہدے کے مطابق توقع کی جارہی تھی کہ طالبان مسلح گروہوں سے تعلقات توڑ دیں گے اور یہ یقینی بنائیں گے کہ امریکی سرزمین کو امریکی مفادات پر حملوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جین اسٹولٹن برگ نے گزشتہ ہفتے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ 'ہم افغانستان میں زمینی صورتحال پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور اسی کی بنیاد پر اتحادی مل کر فیصلے کرنے میں کامیاب ہوں گے'۔

طالبان زور دے رہے ہیں کہ ان کا کسی مسلح گروپ سے تعلق نہیں ہے اور وہ اب بھی اپنے وعدے پر قائم ہیں کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف حملوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت، امریکا دوحہ معاہدے پر عمل نہیں کر رہے، طالبان کا الزام

کابل نے پہلے ہی 5 ہزار طالبان جنگجوؤں کو طالبان امریکا معاہدے کے تحت آزاد کردیا ہے جبکہ ایک ہزار افغان فوجیوں کو ستمبر میں ہونے والے انٹرا افغان مذاکرات کی شروعات کرنے کے لیے 'خیر سگالی' کے طور پر طالبان نے آزاد کیا تھا۔

لیکن دونوں حریف متعدد معاملات پر تگ و دو کرتے رہے ہیں جس میں بہت کم پیشرفت ہوئی ہے جبکہ افغانستان میں خوفناک تشدد بدستور جاری ہے۔

افغان عہدیداروں نے طالبان کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان معاہدوں کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے جو ان کے اور امریکا کے درمیان ہوئے تھے۔

دوحہ میں افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نے الجزیرہ کو بتایا کہ کابل نے امریکا طالبان کے معاہدے کی وجہ سے نہیں بلکہ گرینڈ جرگہ کے فیصلے کے مطابق 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کیا، 'یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے قیدیوں کو رہا نہیں کیا'۔

تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے میں انٹرا افغان مذاکرات کے ذریعے تمام قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں