پاکستان، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہے گا یا نہیں، اعلان کچھ دیر میں متوقع

اپ ڈیٹ 25 فروری 2021
امکان ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل نہیں کیا جاسکتا—فائل فوٹو: رائٹرز
امکان ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل نہیں کیا جاسکتا—فائل فوٹو: رائٹرز

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے 4 روزہ پلانری اجلاس کی تکمیل پر آج اس بات کا اعلان کیا جائے گا کہ کیا پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے تسلی بخش اقدامات اٹھائے ہیں؟

عالمی واچ ڈاگ کے صدر ایف اے ٹی ایف اجلاس کے فیصلوں کا اعلان پاکستانی وقت کے مطابق شام 9:30 بجے ایک نیوز بریفنگ میں کریں گے۔

اکتوبر 2020 میں ہونے والے گزشتہ پلانری اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیلئے مالی معاونت کی روک تھام کے 27 نکاتی ایکشن پلان کے بقیہ 6 اہداف کے لیے فروری 2021 تک گرے لسٹ میں رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: گرے لسٹ سے متعلق پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ ایف اے ٹی ایف پلانری میں ہوگا

آخری مرتبہ کے جائزے میں بھی پاکستان کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں اور کالعدم افراد کو سزا دینے، منشیات اور جواہرات کی اسمگلنگ کو روکنے کے خلاف کارروائیوں کی کارکردگی میں خامیاں تھیں۔

حالیہ اجلاس کے سلسلے میں اہم عہدیداروں اور غیر ملکی سفرا سے پس پردہ ہونے والی بات چیت ظاہر کرتی تھی کہ جیوری منقسم ہے، حکام ایک مثبت نتیجے کے لیے کافی پیش رفت کا دعویٰ کرتے ہیں تاہم کچھ سفرا کی تجویز یہ تھی کہ بہترین صورتحال میں بھی پاکستان جون تک اضافی نگرانی کی فہرست میں رہے گا۔

21 فروری سے شروع ہونے والے پلانری اجلاس سے قبل ایف اے ٹی ایف نے پیر کے روز تمام ممالک کی مجموعی کارکردگی سے متعلق پیش رفت سے آگاہ کیا تھا۔

اس پیش رفت کی بنیاد پر پاکستان، ایف اے ٹی ایف کی 40 میں سے 2 سفارشات، انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے نظام میں بہتر عملدرآمد ظاہر کررہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، گرے لسٹ سے اخراج کیلئے پُرامید

اس میں بتایا گیا کہ 4 چیزوں کے معاملات میں پاکستان کی پیش رفت عدم تعمیل، 25 معاملات پر خصوصی عملدرآمد اور 9 سفارشات پر بڑی حد تک عملدرآمد کی ہے۔

تاہم پلانری اجلاس میں پاکستان کا جائزہ 40 سفارشات پر نہیں بلکہ 27 نکاتی ایکشن پلان کی بنیاد پر لیے جانے کی توقع تھی۔

سفارتکاروں نے کہا تھا کہ اس مرتبہ انہیں اسلام آباد کی جانب سے ویسی جارحانہ سفارتی کوششیں نظر نہیں آئیں جیسی کے ماضی میں بالخصوص اکتوبر 2020 کے پلانری سے قبل کی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ پلانری اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے، گرے لسٹ میں برقرار رکھنے یا گرے لسٹ سے نکالنے سمیت تمام آپشنز پر بات چیت ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایف اے ٹی ایف: پاکستان کی 'قانون سازی' دیگر ممالک کیلئے مثالی ہے، حماد اظہر

تاہم امکان ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ایف اے ٹی ایف کے 3 اراکین، چین، ترکی اور ملائیشیا ملک کی درجہ بندی کم کرنے کے لیے تمام تر دباؤ برداشت کرسکتے ہیں۔

یہ صرف دوستانہ باہمی تعلقات پر نہیں بلکہ کارکردگی پر بھی منحصر ہے، ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمارے نقطہ نظر سے ہم نے تمام ایکشن پوائنٹس مکمل کیے ہیں جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو کیا کرنا ہوگا لیکن بعض اوقات کچھ بااثر ممالک کسی ایسے پوائنٹ پر اعتراض اٹھا سکتے ہیں جسے کوئی جائز نہ سمجھتا ہو۔

یاد رہے کہ دہشت گردی کے لیے مالی معاونت روکنے اور انسداد منی لانڈرنگ رجیم میں خامیوں کے باعث پاکستان جون 2018 سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔

متعلقہ افسران کے ساتھ پسِ پردہ ہونے والی بات چیت میں ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پراعتماد ہے کہ چوں کہ اس نے متعدد مذہبی انتہا پسند جماعتوں اور افراد کے خلاف اقدامات کیے ہیں اور انہیں گرفتار کر کے سزا دی ہے اس لیے وہ گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں