فیصل واڈا کو مستعفی ہونے کے باعث نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ

عدالت نے وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واڈا کی نااہلی کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا — فائل فوٹو: پی آئی ڈی
عدالت نے وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واڈا کی نااہلی کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا — فائل فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل واڈا نااہلی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ فیصل واڈا کو مستعفی ہونے کے باعث نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 13 صفحات پر مشتمل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ فیصل واڈا کے مستعفی ہونے کے باعث انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے کے نتائج ہیں، فیصل واڈا کا الیکشن کمیشن میں جمع کرایا گیا بیان حلفی بظاہر جھوٹا ہے جس پر الیکشن کمیشن فیصلہ کرے۔

کیس کی سماعت

اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل اور سینیٹ انتخابات کے لیے سندھ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اُمیدوار فیصل واڈا کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت جسٹس عامر فاروق نے کی جس میں وفاقی وزیر کے وکیل نے اسمبلی کی رکنیت کا استعفی پیش کیا اور مؤقف اپنایا کہ ان کے مؤکل کے خلاف نااہلی کیس غیر مؤثر ہوچکا ہے۔

وکیل نے کہا کہ فیصل واڈا نے بطور رکن قومی اسمبلی استعفی دے دیا ہے اس لیے یہ پٹیشن غیر مؤثر ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:فیصل واڈا کو نااہلی کیس میں جواب دینے کا آخری موقع

بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ فیصل واڈا نے سینیٹ الیکشن کے لیے قومی اسمبلی میں ووٹ کاسٹ کیا ہے، پتا نہیں اس سے پہلے استعفی دیا یا بعد میں؟

بیرسٹر جہانگیر جدون کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی بہت سے اراکین اسمبلی استعفی دے چکے اور دوبارہ پارلیمان میں آجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک اسپیکر قومی اسمبلی استعفی منظور نہ کر لیں، تب تک متعلقہ شخص ایوانِ زیریں کا رکن ہی ہوتا ہے، بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ فیصل واڈا نے دہری شہریت نہ رکھنے کا جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا جس کی وجہ سے وہ صادق و امین نہیں رہے اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایسا شخص پارلیمنٹ کا ممبر نہیں ہو سکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سوال یہ نہیں کہ وہ اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے بلکہ فیصل واڈا کی جانب سے جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے کے نتائج ہیں۔

مزید پڑھیں: فیصل واڈا کے سینیٹ انتخاب کے لیے منظور شدہ کاغذات نامزدگی چیلنج

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ سے واضح ہے کہ فیصل واڈا کے کاغذات نامزدگی کی منظوری تک وہ امریکی شہری تھے، 18 جون کو کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی مکمل ہوئی جبکہ 25 جون کو انہوں نے شہریت ترک کی۔

سماعت میں درخواست گزار میاں فیصل ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیصل واڈا نے نااہلی سے بچنے کے لیے بطور رکن قومی اسمبلی استعفی دیا، میڈیا پر بھی مختلف سیاستدانوں کے بیانات آرہے ہیں کہ فیصل واڈا نے ڈس کوالیفکیشن سے بچنے کے لیے استعفی دیا ہے۔

اس موقع پر نمائندہ الیکشن کمیشن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ای سی پی کے پاس بھی جھوٹے بیان حلفی پر فیصل واڈا کو نااہل قرار دینے کا معاملہ زیر التوا ہے۔

فیصل واڈا کے وکیل نے ایک مرتبہ پھر استدعا کی کہ ان کے مؤکل کے خلاف نااہلی درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنا پر نمٹا دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:فیصل واڈا نے جھوٹا بیان حلفی کیسے دیا، عدالت عالیہ

تاہم جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں فیصلے میں کہا تھا کہ جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے کے اپنے نتائج ہوں گے۔

اس کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے 2018 کا الیکشن شیڈول طلب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن شیڈول جمع کروائیں کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور ان کی اسکروٹنی سمیت الیکشن کی کیا تاریخ تھی؟

بعد ازاں عدالت نے وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واڈا کی نااہلی کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

فیصل واڈا نااہل ہوئے تو سینیٹر بھی نہیں بن سکتے، بیرسٹر جہانگیر جدون

فیصل واڈا نااہلی کیس میں درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ آیا تو فیصل واڈا سینیٹر بھی نہیں بن سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہے کہ جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے کے اپنے نتائج ہوں گے۔

بیرسٹر جہانگیر جدون نے مزید کہا کہ اگر بیان حلفی جھوٹا ہے تو وہ جمع کرانے والا صادق اور امین نہیں اور کوئی بھی پبلک آفس ہولڈ نہیں کر سکتا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ فیصل واڈا کے وکیل نے ان کا استعفیٰ عدالت میں پیش کیا جس میں لکھا تھا کہ آج 9:25 پر استعفیٰ اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا دیا گیا ہے البتہ استعفے کے مستقبل کا علم نہیں کہ وہ کب منظور ہوگا اور قومی اسمبلی کی نشست کب خالی ہو گی؟

دوہری شہریت کا معاملہ

خیال رہے کہ گزشتہ برس کے اوائل میں ایک انگریزی اخبار 'دی نیوز' نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ عام انتخابات 2018 میں حصہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں جمع کروائے گئے کاغذات نامزدگی کے وقت وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واڈا دوہری شہریت کے حامل تھے۔

وفاقی وزیر فیصل واڈا کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی 11 جون 2018 کو جمع کروائے، جو الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک ہفتے بعد 18 جون کو منظور ہوئے۔

تاہم اس معاملے کے 4 روز بعد پی ٹی آئی، ایم این اے نے کراچی میں امریکی قونصلیٹ میں اپنی شہریت کی تنسیخ کے لیے درخواست دی تھی۔

واضح رہے کہ قانون کے مطابق دوہری شہریت کے حامل فرد کو اس وقت تک الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں جب تک وہ دوسری شہریت ترک نہیں کر دیتے۔

اسی معاملے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2018 میں 2 قانون سازوں ہارون اختر اور سعدیہ عباسی کو الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے وقت دوہری شہریت پر نااہل کردیا تھا۔

فیصل واڈا کے خلاف نااہلی کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے علاوہ الیکشن کمیشن میں بھی زیر سماعت ہے جس میں عدم حاضری پر کمیشن نے انہیں جرمانہ بھی کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں