سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2021
اسد درانی آئی ایس آئی کے سربراہ رہ چکے ہیں—فائل فوٹو: الجزیرہ
اسد درانی آئی ایس آئی کے سربراہ رہ چکے ہیں—فائل فوٹو: الجزیرہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دے دیا۔

وفاق دارالحکومت میں عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کو پیش ہونے کی ہدایت کی جبکہ اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ عدالت میں موجود تھے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اسد درانی کا نام، انکوائری زیر التوا ہونے کی وجہ سے ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا، (تاہم) سارا ریکارڈ دیکھا اس وقت اسد درانی کے خلاف کوئی انکوائری زیر التوا نہیں، نہ کوئی گراؤنڈ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر عام شہری کی طرح ان کے تھری اسٹار ریٹائرڈ جنرل کے بھی حقوق ہیں، ساتھ ہی عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی گراؤنڈ بتائیں، اگر نہیں ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان کا نام ای سی ایل میں رکھا جائے۔

مزید پڑھیں: اسد درانی 2008 سے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' سے رابطوں میں رہے، وزارت دفاع

بعد ازاں عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے کہا تھا کہ اسد درانی کا نام ای سی ایل میں اس لیے رکھا کہ ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے۔

عدالت نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق اس وقت کوئی انکوائری نہیں چل رہی، درخواست گزار ایک تھری اسٹار ریٹائرڈ جنرل ہے اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی بھی رہے ہیں، مزید یہ کہ اب وہ ایک عام شہری ہیں اور آزاد گھومنا ان کا حق ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کو کھلی چھوٹ تو نہیں کہ کسی کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دے، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع کے نمائندے کو نوٹس کرکے ان سے جواب طلب کرلیا جائے۔

ان کی اس بات پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کسی کو بھی بلانے کی کوئی ضرورت نہیں، ریکارڈ کے مطابق اسد درانی کے خلاف کوئی تازہ انکوائری زیر التوا نہیں، ان کا نام ای سی ایل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔

جس کے بعد عدالت عالیہ نے اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹا دی۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ جنرل (ر) اسد درانی کا نام بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے سابق سربراہ کے ساتھ مشترکہ طور پر کتاب لکھنے پر ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا جس کے خلاف انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

اکتوبر 2018 میں جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے ای سی ایل سے اپنے نام کے اخراج کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

مذکورہ درخواست پر وزارت دفاع کو بھی نوٹس ہوا تھا جس نے جنوری 2021 میں تحریری جواب جمع کرایا تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ سابق سربراہ آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا نام ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث ای سی ایل میں شامل کیا گیا۔

جواب میں کہا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی 32 سال پاکستان آرمی کا حصہ رہے اور اہم و حساس عہدوں پر تعینات رہے لیکن 2008 سے دشمن عناصر بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' سے رابطوں میں رہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسد درانی کی کتاب: فوج کا معاملے کی تحقیقات کا اعلان

عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اسد درانی کے خلاف انکوائری حتمی مرحلے میں ہے اور اس موقع پر ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا۔

وزارت دفاع نے کہا تھا کہ سابق سربراہ آئی ایس آئی نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے سابق چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھی، جس کا سیکیورٹی لحاظ سے جائزہ لیا گیا اور انکوائری بورڈ کے مطابق کتاب کا مواد پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔

یہاں یہ مدنظر رہے کہ وفاقی حکومت نے 29 مئی 2018 کو پاک فوج کی درخواست پر اسد درانی کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا تھا۔

پاک فوج کی جانب سے یہ فیصلہ اسد درانی کے بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ کے ہمراہ مشترکہ طور پر لکھی گئی کتاب کے حوالے سے وضاحت کے لیے 28 مئی کو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں طلبی کے بعد کیا گیا تھا۔

جنرل (ر) اسد درانی اگست 1990 سے مارچ 1992 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے، ان کے خلاف باقاعدہ انکوائری کا آغاز ہونے کے بعد مئی میں انہیں جی ایچ کیو بھی طلب کیا گیا تھا۔

انکوائری کی سربراہی حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل نے کی تھی جس میں ان سے تحریر کردہ کتاب میں لکھے گئے مواد کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں