صدر مملکت کا خواتین کو بہتر صحت، تعلیم، مالی خود انحصاری کے ذریعے مضبوط بنانے پر زور

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2021
صدر مملکت کا عالمی یومِ خواتین کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب—تصویر: ڈان نیوز
صدر مملکت کا عالمی یومِ خواتین کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب—تصویر: ڈان نیوز

صدر مملکت عارف علوی نے بہتر صحت، تعلیم کی فراہمی اور مالی طور پر خود انحصاری ذریعے پاکستانی خواتین کو مضبوط بنانے پر زور دیا ہے۔

صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ مسلمانوں کی ثقافت انتہائی سنہری ہے لیکن علاقائی ثقافت نے وراثت کے معاملے کو خراب کیا اور پاکستان میں واقعی خواتین کو وراثت نہیں ملتی، جس کی وجہ سے دنیا میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ شاید پاکستان میں قوانین نہیں تھے لیکن یہاں قوانین موجود تھے ان پر عملدرآمد اب ہورہا ہے۔

اسلام آباد میں عالمی یومِ خواتین کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس دن پاکستان قائم ہوا اس دن سے وراثت کا قانون موجود تھا لیکن اب ان پر تفصیل سے عملدرآمد پر غور کیا جارہا ہے اور عمل نہ کرنے پر سزائیں دی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جب خواتین اپنے حقوق کی بات کرتی ہیں تو کبھی کبھی ان پر لیبل لگا دیا جاتا ہے کہ وہ مغربی عورت کی طرح مکمل آزادی کی بات کررہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:2020 ملک میں خواتین و بچوں کے حقوق سے متعلق قانون سازی کا سال

صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ تاریخ میں عالمی وباؤں کے دوران اور نرسنگ کے شعبے میں خواتین ہمیشہ سے ایک نمایاں کردار ادا کرتی آرہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی ہم نے دیکھا کہ سڑکوں پر ایک جانب دائیں بازو اور دوسرے جانب بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی خواتین موجود تھیں لیکن جب دونوں کو بلا کر ان کے مسائل معلوم کیے تو اندازہ ہوا کہ 99 فیصد مسائل کا تعلق مغرب یا مشرق نہیں بلکہ خواتین اور مسلمانوں کی روایات سے تھا۔

صدر مملکت نے اپنے خطاب کے دوران نئی ماؤں میں غذائیت کی کمی کے مسئلے پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ عورت کو مضبوط کرنا ہے تو اس کی جسمانی حالت، اس کی قانونی حیثیت، معاشرے میں اس کے مقام کو اور قانون کے اعتبار سے اس کی وراثت کو مضبوط بنانا ہے جس کی جانب ہماری توجہ نہیں۔

صدر مملکت کا کہنا کہ اگر عورت کی صحت کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو وہ معاشرے میں پیداواری کردار ادا نہیں کرسکتی ساتھ ہی انہوں نے خواتین کے لیے ٹیلی ہیلتھ کی ضرورت پر زور دیا تا کہ وہ اپی صحت کے حوالے سے باآسانی مشورہ کرسکیں، کیوں کہ آئندہ 5 سے 6 سال کے عرصے میں امکان نہیں ہوگا کہ ہر مرد و زن فوراً علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس پہنچ سکے۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا سال 2023 تک خواتین کے 2 کروڑ فعال بینک اکاؤنٹس کا ہدف

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں 40 فیصد افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو کم از کم مشورہ کرنے کا موقع ہونا چاہیے کیوں کہ ایسی باتوں کو ٹابو (ممنوعہ موضوع) سمجھا جاتا ہے جس پر بات کرنے سے معاشرہ اور ثقافت روکتی ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ثقافت نے مذہبی قوانین کی بھی نفی کردی ہے، قرآن پاک میں سورۃ النسا میں خواتین کی وراثت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں اس بات کا ذکر ہونا کہ عورت کو وراثت نہیں ملتی کتنے افسوس کی بات ہے۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ مالی خود انحصار کے بغیر آزادی مشکل ہے، خواتین کو وراثت میں جائیداد ملے گی تو اس سے ہی وہ مضبوط ہوں گی خواتین کی مالی خود انحصاری کا راستہ اسلام نے دکھایا ہے یہ مغرب کا قانون نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو معاشرے کا ستون سمجھتے ہوئے ہی احساس پروگرام میں سب سے زیادہ رقوم خواتین میں تقسیم کی گئیں، مشرقی معاشروں میں دیکھا گیا کہ خواتین مردوں کے مقابلے زیادہ ذمہ دار ہیں اسی طرح قرضوں کی واپسی میں بھی خواتین کی واپسی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کمیٹی میں خواتین کے جائیداد کے حقوق ترمیمی بل 2020 کثرت رائے سے منظور

صدر مملکت نے بتایا کہ حکومت نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کاروبار کرنے والی خواتین کو 50 لاکھ روپے تک کا قرض مل سکتا ہے لیکن قرض لینے والی خواتین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے اس کی وجہ یہ کہ اس حوالے سے معلومات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کے حوالے سے لڑکیوں کے ڈراپ آؤٹ کو کم کیا جائے اس کے علاوہ دنیا بھر میں ایمپلائمنٹ ڈراپ آؤٹ کو بھی کم کرنے کے لیے کام ہورہا ہے اور تاکہ بچوں کی پیدائش کے بعد خواتین اور ان کے شوہروں کو کچھ چھوٹ دی جائے جس سے وہ دوبارہ کام پر واپس آسکیں۔

صدر مملکت نے شعبہ طب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں میں لڑکیوں کی تعداد 70 سے 80 فیصد ہے لیکن عملی طور پر بحیثت ڈاکٹر کام کرتے ہوئے ان کی تعداد کم ہوجاتی ہے جبکہ اسپیشلائزیشن میں یہ صرف 5 فیصد رہ جاتی ہیں۔

اس لیے ہمیں معاشرے کے نظام کو ایسا کرنا چاہیے کہ اگر وہ جائیں تو واپس آجائیں، فل ٹائم جاب شاید ان کے لیے مشکل ہو اس لیے 51 فیصد آبادی کو ایک سائیڈ پر کرنے کے بجائے ان کے لیے پارٹ ٹائم جاب کے مواقع ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک میں ایسے قوانین بن رہے ہیں جو افسوسناک ہیں، وہاں ایک نن (راہبہ) حجاب کر کے جاسکتی ہے لیکن ایک مسلمان خاتون حجاب نہیں کرسکتی، یورپی یونین کو یہاں انسانی حقوق نظر نہیں آتے؟ اس طرح بھارت میں شادی کا بل آگیا ہے کہ ہندو مرد اور مسلمان عورت کی شادی ختم کی جائے کیا یہ ان کے حقوق پر ضرب نہیں ہے؟

صدر مملکت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ایک دستاویز کا ذکر کیا جس میں پاکستان کا ذکر تو موجود تھا لیکن بھارت جہاں قوانین تبدیل کیے جارہے ہیں ان کا ذکر نہیں تھا، جسے انہوں نے منافقت قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاشی طور پر مضبوط ممالک کی باتیں چھپانا ہے اور اسی لیے وہاں مظالم بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں خواتین پر تشدد نہ دکھایا جائے ڈراموں میں خواتین پر تشدد کو بیماری کے طور پر دکھایا جائے جس کے لیے ہمیں ذمہ داری میڈیا کی ضرورت ہے۔

خواتین کے حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، اسد قیصر

قبل ازیں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تقریب سے خطاب کے دوران خواتین کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے خواتین کے معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی کارناموں کو منانے کے لیے منائے جانے والے عالمی یوم خواتین کے موقع پر اپنے اس عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی پسند معاشرے کے قیام کے لیے خواتین کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھنا ہوگی، شیریں مزاری

علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے ہمیں نہ صرف قوانین کے ذریعے بلکہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرتے ہوئے جدوجہد کرنا ہے۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد، وراثت کے حقوق کا تحفظ اور کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ'ان قوانین کی موجودگی کے باوجود ہمیں ہراسگی، بدسلوکی اور امتیازی سلوک کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہوگی'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ہمارا چیلنج ہے اور خواتین کو امتیازی سلوک اور بدسلوکی کے خلاف جنگ میں آگے آنا ہوگا'۔

تبصرے (0) بند ہیں