ہمارے لیے تعلیمی ادارے بند کرنا بڑا مشکل فیصلہ ہے، شفقت محمود

اپ ڈیٹ 22 مارچ 2021
وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ وزارت تعلیم کی خواہش ہے کہ تعلیمی ادارے کھلے رہیں— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ وزارت تعلیم کی خواہش ہے کہ تعلیمی ادارے کھلے رہیں— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ ہمارے لیے تعلیمی ادارے بند کرنا بڑا مشکل فیصلہ ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔

لاہور چیمبر آف کامرس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شفقت محمود نے کہا کہ پچھلے ایک سال میں تعلیم کا بہت نقصان ہوا ہے خصوصاً ایسے ملک میں جہاں دو کروڑ بچے پہلے ہی اسکول نہیں جاپا رہے لہٰذا اگر اسکول بند ہو جاتے ہیں تو لوگوں کی توجہ دوسری جانب مبذول ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی تیسری لہر، این سی او سی نے مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال جب اسکول بند ہوا تو ہم نے آن لائن تعلیم اور ٹیلی اسکول جیسے کئی اقدامات کیے، ٹیلی اسکول اب بھی چل رہا ہے اور 10 گھنٹے روزانہ تعلیم دی جاتی ہے لیکن آن لائن تعلیم کی وہ بات نہیں ہے جو کلاس روم میں ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے تعلیمی ادارے بند کرنا بڑا مشکل فیصلہ ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم کا سلسلہ چلتا رہے۔

وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ 24 مارچ کو دوبارہ اجلاس ہے جس میں ہم سوچیں گے کہ اسکول کھولنے ہیں یا نہیں اور کووڈ-19 کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کیا جائے گا لیکن وزارت تعلیم کی خواہش ہے کہ تعلیمی ادارے کھلے رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں تعلیمی نظام تقسیم تھا اور اسی لیے ہم نے یکساں تعلیمی نصاب بنایا ہے جو پاکستان کے تمام اسکولوں پر لاگو ہو گا، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں فوری اجرا کیا جا رہا ہے، بلوچستان میں بھی ہو جائے گا البتہ سندھ کو کچھ تحفظات ہیں جن کو ہم دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں مزید 3 ہزار 669 افراد وائرس سے متاثر، 20 انتقال کر گئے

واضح رہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کے دوران کیسز ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور این سی او سی کے چیئرمین اسد عمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ آج این سی او سی کے اجلاس میں ہم نے کورونا سے متعلق پابندیوں میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔

این سی او سی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ صوبوں اور اسلام آباد انتظامیہ کو ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے سخت ہدایات جاری کردی گئی ہیں اور ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا گیا ہے۔

دوسری جانب پارلیمانی سیکریٹری برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا ہے کہ کووڈ – 19 کی تیسری لہر تیزی سے پھیل رہی ہے اور کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں کھیلوں کی سرگرمیوں، شادی کی تقریبات، جلسوں پر پابندی کا امکان

ایک انٹرویو میں انہوں نے ملک میں وائرس کی تیسری لہر کے تیزی سے پھیلاؤ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد پاکستان کے مختلف شہروں میں پہنچے ہیں جس کی وجہ سے اسلام آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بیماری وبا پھیلی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس ایک مہلک وائرس ہے لیکن جس طرح ہم نے پہلی دو لہروں کے دوران ایس او پیز پر عمل کرکے اسے کنٹرول کیا تھا اسی طرح ایس او پیز پر سختی سے عمل کرکے ہم اس لہر پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔

نوشین حامد نے ان ملک میں 'مکمل لاک ڈاؤن' کے اطلاق کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں لگایا جا رہا بلکہ ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان رواں ماہ کے آخر تک چین کی دو کمپنیوں سے کووڈ۔ 19 ویکسینز کی 10 لاکھ خوراکیں حاصل کرے گا اور انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے چینی فرم سینوفارم سے کورونا وائرس ویکسین خریدنے کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دے دی ہے۔

یاد رہے کہ وائرس کی نئی لہر کے دوران اسلام آباد اور صوبہ پنجاب میں تیزی سے رپورٹ ہو رہے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبہ پنجاب میں 1863 افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی جبکہ 8 مریض انتقال کر گئے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کیسز میں اضافہ، لاہور کے تمام مرکزی ہسپتالوں میں گنجائش ختم

گزشتہ ہفتے ہی وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر صوبہ پنجاب کے 7 شہروں میں 2 ہفتوں کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا تھا اس کے علاوہ ان شہروں کے تمام تعلیمی اداروں میں پہلے ہی موسم بہار کی تعطیلات دے دی گئی تھیں۔

وائرس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے جہاں مختلف پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا اعلان کیا تھا وہیں مختلف شہروں میں تعلیمی اداروں کو بھی 15 مارچ سے 28 مارچ تک بند کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے اولین 2 کیسز 26 فروری 2020 کو سامنے آئے تھے جس میں ایک کراچی میں جبکہ دوسرا کیس گلگت بلتستان میں سامنے آیا تھا، جس کے بعد مارچ کے مہینے سے ملک میں لاک ڈاؤن سمیت مختلف پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔

تاہم اپریل سے ہی پابندیوں میں نرمی کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو مئی میں رمضان اور عید کے موقع پر بہت زیادہ نرم ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں جون کے دوران پاکستان نے وبا کا عروج دیکھا جس میں یومیہ کیسز 6 ہزار سے تجاوز کر گئے تھے۔

مزید پڑھیں: سندھ بھر میں تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھلے رہیں گے، سعید غنی

جولائی میں وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آنا شروع ہوئی اور اگست میں معمولات زندگی بحال ہونے لگیں جس کے بعد ستمبر میں تعلیمی ادارے بھی 6 ماہ کے بعد دوبارہ کھل گئے تھے۔

تاہم اکتوبر اور بعد ازاں نومبر 2020 میں وائرس کی دوسری لہر نمودار ہوئی اور حکومت ایک مرتبہ پھر نومبر کے آخر میں تعلیمی ادارے بند کرنے پر مجبور ہوئی جبکہ ساتھ ہی مختلف پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں