ڈسکہ ضمنی انتخاب: پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2021
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جس مواد پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا تھا صرف وہ پیش کرنا ضروری ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جس مواد پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا تھا صرف وہ پیش کرنا ضروری ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ میں ڈسکہ ضمنی انتخاب کیس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر پولیس الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کر رہی تھی تو فوج طلب کیوں نہیں کی گئی، پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ انتحابی عمل ملتوی کر کے پولیس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ 7 فروری سے پولیس تعاون نہیں کررہی تھی الیکشن 19 فروری کو ہوا، کیا صرف خط لکھنے سے سیکیورٹی اقدامات ہوتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کے امیدوار کی درخواست پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں:ڈسکہ کے 'لاپتا' الیکشن عہدیداران سے متعلق جیو فینسگ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتحار کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے ان کی خیریت دریافت کی اور کہا کہ امید کرتے ہیں آپ مختصر دلائل دیں گے۔

وکیل مسلم لیگ (ن) نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی انکوائری کے بغیر فیصلہ دینے کی بات درست نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں تمام متعلقہ حکام سے رابطہ کیا تھا۔

سلمان اکرم راجا کا مزید کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں ٹرن آؤٹ 52 فیصد رہا، شہری علاقوں میں فائرنگ کے باعث ٹرن آؤٹ 35 فیصد سے کم تھا، الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عمل میں منصوبے بنا کر رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کسی منصوبے کی بات نہیں کی، پریزائیڈنگ افسران کا موبائل ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس نہیں تھا، سپریم کورٹ اپیل میں موبائل ریکارڈ یا ڈیٹا کا کس طرح جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسران پولیس اسکوڈ کے ساتھ لاپتا ہوئے، وحیدہ شاہ کیس کا پیرا نمبر 15 پڑھیں، اسے پڑھ کے آپ کو معلوم ہوگا کہ الیکشن اسٹاف کا کنڈکٹ کتنا اہم ہوتا ہے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسی صورتحال میں الیکشن ٹریبونل کے لیے تحقیقات کا معیار الیکشن کمیشن سے مختلف ہوگا، ای سی پی ایک آئینی ادارہ ہے جس نے اپنی تحقیقات کیں، الیکشن کمیشن نے جو حکم جاری کیا وہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے استعمال ہوگا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا ڈسکہ الیکشن ملتوی کرنے کا حکم

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو یہ تاثر ملا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے. انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ان دو وجوہات کی بنیاد پر مؤثر قرار دیا جائے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ پولیس افسر عمر ورک کے زیر کنٹرول علاقے میں کتنے پریزائیڈنگ افسر تھے؟ جس پر سلمان اکرام راجا نے کہا کہ اس علاقے میں لاپتا ہونے والے پریزائیڈنگ افسران کی تعداد 8 ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کل 23 جمع 76 جمع 8 پولنگ اسٹیشنز پر حالات خراب ہوئے، یہ اتنی بڑی تعداد ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے پورے حلقے میں پولنگ کروانے کا فیصلہ کیا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ حقائق اور قانون کے مطابق ہے۔

ایک موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جن فیصلوں کا آپ حوالہ دے رہے وہ چند پولنگ اسٹیشنز سے متعلق ہے، ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کا حکم پورے حلقے کے لیے دیا گیا۔

انہوں نے سلمان اکرم راجا کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ آپ فیصلے پڑھ رہے ہیں لیکن اصل نقطے کی طرف نہیں آ رہے، گزشتہ ہفتے بھی آپ دلائل مکمل نہیں کر سکے تھے، آپ کے دلائل مکمل کرنے میں ناکامی کے باعث طوفان برپا ہوا تھا آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کریں۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سول انتظامیہ نے ڈسکہ میں الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کیا، انتظامیہ کے عدم تعاون کا فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا، ڈسکہ میں پریزائیڈنگ افسران کو ہی اغوا کر لیا گیا ان کا غائب ہونا سنگین بات ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ اپنے دلائل کو 20 پریزائیڈنگ افسران تک محدود رکھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب ہر صورت ہوگا، سپریم کورٹ

وکیل مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن متنازع پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دینا وہ بھی مناسب تھا، پورا حلقہ نہ بھی سہی تو 109 متنازع پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے لیکن اولین استدعا ہے کہ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم برقرار رکھا جائے۔

سلمان اکرم راجا کے دلائل کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

وکیل ای سی پی نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسر پر لازم ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی فراہم کردہ گاڑی میں ہی انتخابی مواد کی ترسیل کریں لیکن پولنگ کے فوراً بعد مذکورہ پولنگ اسٹاف حلقے کی حدود سے ہی باہر چلا گیا۔

وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو مہیا اطلاعات کے مطابق پولنگ اسٹاف سیالکوٹ چلا گیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے کے بعد لوکیشن کیوں منگوائی پریزائیڈنگ افسران کی لوکیشن کی قانونی حثیت نہیں جس مواد پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا تھا صرف وہ پیش کرنا ضروری ہے، فیصلہ کرتے وقت الیکشن کمیشن کو معلوم ہی نہیں تھا معاملہ کیا ہے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقے سے باہر جاکر پریزائیڈنگ افسران اور پولیس کے موبائل بند ہو گئے تھے، پی ٹی آئی نے اپیل میں بد امنی ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس ڈرائیور، پریزائیڈنگ افسر اور پولیس افسر کے رابطہ نمبر ہوتے ہیں، کیا تینوں کے نمبروں پر رابطہ نہیں ہوا تھا؟

وکیل نے بتایا کہ جی تینوں نمبر اس وقت بند جا رہے تھے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ یہ نکتہ بہت اہم ہے۔

مزید پڑھیں: ڈسکہ انتخاب: سپریم کورٹ نے فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتحابی عمل ملتوی کر کے پولیس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ 7 فروری سے پولیس تعاون نہیں کررہی تھی الیکشن 19 فروری کو ہوا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر پولیس الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کر رہی تھی تو فوج طلب کیوں نہیں کی گئی، پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا، پولیس تعاون نہیں کررہی تھی تو متبادل انتظام کیوں نہیں کیا، کیا صرف خط لکھنے سے سیکیورٹی اقدامات ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس مجمع منتشر کرنے کی صلاحیت ہی نہیں، حکومتی اداروں کی نااہلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن منظم دھاندلی کو شواہد سے ثابت کرے، شواہد نہیں تو قانون کی وسیع خلاف ورزی دیکھی جائے۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اکرم راجا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق 360 میں سے 340 پولنگ اسٹیشنز پر نوشین افتخار جیت رہی تھیں، دیکھنا ہے کہ کیا پریزائیڈنگ افسران کے لاپتا ہونے سے نتیجہ متاثر ہوا۔

سماعت میں آج مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

ڈسکہ ضمنی انتخاب

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 75 (سیالکوٹ فور) میں ضمنی انتخاب میں نتائج میں غیر ضروری تاخیر اور عملے کے لاپتا ہونے پر 20 پولنگ اسٹیشن کے نتائج میں ردو بدل کے خدشے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے متعلقہ افسران کو غیرحتمی نتیجے کے اعلان سے روک دیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات عائد کر کے دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا جس پر وزیراعظم عمران خاں نے ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 پر ہوئے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اُمیدوار سے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دینے کا کہا تھا۔

جس پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہوئے این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیا اور 18 مارچ کو حلقے میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا تھا۔

جس پر اس ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی)کے امیدوار علی اسجد ملہی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

درخواست میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ الیکشن کمیشن نے صورتحال اور حقائق کو بالکل فراموش کرتے ہوئے فیصلہ کیا جو 'واضح طور پر غیر منصفانہ اور غیر قانونی' ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے دستیاب ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا، حلقے میں دوبارہ انتخابات کا کوئی جواز نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں