اپوزیشن کی رضامندی کے بعد مختصر نوٹس پر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب

اپ ڈیٹ 16 اپريل 2021
اجلاس کو آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اپوزیشن کی حمایت کے ساتھ طلب کیا گیا، رپورٹ — فائل فوٹو:اے پی پی
اجلاس کو آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اپوزیشن کی حمایت کے ساتھ طلب کیا گیا، رپورٹ — فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: پارلیمانی سال میں قومی اسمبلی کے کم از کم 130 روز اجلاس منعقد کرنے کے آئینی تقاضے کو پورا کرنے کی جدوجہد کرتے ہوئے حکومت نے مختصر نوٹس پر پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کا اجلاس آج طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی عمارت میں واقع سینیٹ سیکریٹریٹ کے دو علیحدہ نوٹی فکیشنز، جن میں کہا گیا تھا کہ دفاتر جمعے سے اتوار تک 3 روز کے لیے کورونا وائرس کیسز میں اضافے کی وجہ سے اسے جراثیم کش کرنے کے لیے بند رہیں گے، کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 10 بجکر 30 منٹ پر پارلیمنٹ ہاؤس میں اجلاس طلب کر لیا۔

گزشتہ ماہ جب حکومت نے چند آرڈیننسز کی مدت میں توسیع حاصل کرنے اور انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کے لیے صرف ایک روزہ نوٹس پر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تھا تو حزب اختلاف نے سخت احتجاج کیا تھا۔

تاہم اس مرتبہ ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اجلاس اپوزیشن ارکان کی مکمل حمایت کے ساتھ طلب کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کا کام بہتر بنانے کیلئے سینئر اراکین پارلیمنٹ کی کونسل تشکیل

اپوزیشن کے ساتھ سمجھوتے کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے بعد ازاں اجلاس کے لیے ایس او پیز (معیاری آپریٹنگ طریقہ کار) جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتے میں صرف تین دن یعنی پیر، بدھ اور جمعے کو منعقد ہوگا جو زیادہ سے زیادہ گھنٹے کا ہوگا۔

اس میں کہا گیا کہ 'ایک وقت میں اراکین کی کم از کم تعداد ایوان میں موجود رہے گی اور اجلاس کے دوران کسی اہم قانون سازی کی صورت میں پارلیمانی پارٹیوں کو تین دن پہلے آگاہ کیا جائے گا'۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ سال اگست میں تیسرے پارلیمانی سال کے آغاز سے اب تک اسمبلی کے اجلاس صرف 61 دن ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو 12 اگست تک اسمبلی کا مزید 69 روز اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ حکومت آئینی تقاضے پورا کرنے میں کامیاب ہوجائے گی کیونکہ بجٹ اجلاس بھی عنقریب منعقد ہونا ہے۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے آج کے اجلاس کے لیے 11 نکاتی ایجنڈا بھی جاری کیا ہے جس میں 'تجارت / کاروباری سرگرمیوں کے لیے پاک ۔ افغان سرحد پر نواں پاس اور گورسل سرحدی مقامات کی بندش' اور 'لاہور میں نوجوانوں میں منشیات کی لت میں اضافے' کے معاملات پر 2 توجہ دلاؤ نوٹسز بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں بحث کیلئے لامحدود وقت کی پیشکش

ایجنڈے کے مطابق وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان آئین کے تحت ضروری بجلی کی تقسیم، ترسیل اور پیداوار (ترمیمی) آرڈیننس 2021 کی ریگولیشن اسمبلی کے سامنے رکھیں گے۔

اس کے علاوہ وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نورالحق قادری اور وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری بالترتیب مسلم خاندانی قوانین (ترمیمی) بل 2021 اور قومی کمیشن برائے حقوق اطفال (ترمیمی) بل 2021 متعارف کرائیں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل اور رکن قومی اسمبلی احسن اقبال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ حکومت نے اپوزیشن کو نوٹیفائی کیا تھا کہ اس نے اجلاس صرف دنوں کی تکمیل کی آئینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے طلب کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوچکا ہے کہ حکومت اجلاس کے دوران کوئی متنازع ایجنڈا نہیں لائے گی کیونکہ اس نے وبائی امراض کی وجہ سے شرکت کرنے والے اراکین کی تعداد کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی: بچوں کو جسمانی سزا، سود کی بنیاد پر کاروبار کی ممانعت کے بلز منظور

جب ان سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن نے جب پہلے ہی حکومت سے تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اب کیوں تعاون کر رہی ہے جس پر لیگی رہنما نے کہا کہ یہ حکومت کے ساتھ تعاون نہیں ہے کیونکہ پارلیمنٹ صرف حکومت سے تعلق نہیں رکھتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کو اپنے دن لازمی مکمل کرنے چاہیے جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سیکریٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ ان کی پارٹی کے قانون ساز کسی بھی آئینی شق کی خلاف ورزی نہیں دیکھنا چاہیں گے تاہم حکومت کو پارلیمنٹ کے کردار کو پامال نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت ہمیشہ ہی اچانک پارلیمانی اجلاس بلاتی ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اجلاس نہیں بلائے جائیں تاہم مختصر وقت میں اجلاس طلب کرنے کی ایمرجنسی کیا تھی'۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ سیکریٹریٹ نے کووڈ 19 کی وجہ سے اپنے دفاتر بند رکھنے کا اعلان کیا تھا تاہم قومی اسمبلی اجلاس اسی عمارت میں اور اسی دن طلب کیا گیا ہے۔

شازیہ مری نے آرڈیننسز کے ذریعے قانون سازی کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت کو آئینی تقاضے پورے کرنے کی فکر ہے تو اسے دیگر آئینی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے 30 مارچ کو اجلاس کے پہلے روز پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف نے اسلام آباد میں کورونا کیسز کی شرح میں اضافے کے باوجود حکومت کی جانب سے اجلاس طلب کرنے پر احتجاج کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب حکومت ہر طرح کے اندرونی اور بیرونی اجتماعات پر پابندی عائد کر رہی ہے اور دوسری جانب اس نے اسمبلی کو صرف ایک دن کے نوٹس پر طلب کرلیا ہے تاکہ محض دنوں کی آئینی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ایجنڈے کے آئٹمز میں کوئی اہم بات نہیں ہے جو حکومت کی طرف سے وبائی امراض کے دوران اجلاس طلب کرنے کے عمل کو جواز فراہم کرسکتی ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں