پشاور ہائیکورٹ: سرکاری ملازم کے خلاف وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کا فیصلہ کالعدم قرار

اپ ڈیٹ 18 اپريل 2021
بینچ نے متعلقہ حکام سے درخواست گزار کے خلاف تحقیقات کی کارروائی کو اے سی ای کے پاس بھیج دی—فائل فوٹو: حسین افضل
بینچ نے متعلقہ حکام سے درخواست گزار کے خلاف تحقیقات کی کارروائی کو اے سی ای کے پاس بھیج دی—فائل فوٹو: حسین افضل

پشاور ہائیکورٹ نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ایک ملازم کے خلاف وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کی کارروائی کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ کارروائی کا اختیار صرف متعلقہ محکمے کے پاس ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد ناصر پر مشتمل بینچ نے اے سی ای کے تفتیشی افسر غلام محمد کی جانب سے دائر درخواست کو جزوی طور پر قبول کرتے ہوئے ریماکس دیے کہ درخواست گزار کے خلاف لازمی ریٹائرمنٹ کا جرمانہ لگانا وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

مزید پڑھیں: اسلامیہ کالج یونیورسٹی: ہراساں کرنے والے استاد کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ درخواست گزار کی مجاز اتھارٹی کو ملازم کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے اختیارات سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔

بینچ نے متعلقہ حکام سے درخواست گزار کے خلاف تحقیقات کی کارروائی کو اے سی ای کے پاس بھیجنے کے لیے کہا تاکہ وہ اہلیت اور نظم و ضبط کے قواعد کے تحت ریگولر تفتیش کے طور پر کی جا سکے۔

عدالت نے درخواست پر ایک تفصیلی فیصلے میں ورکس پلیس ایکٹ 2010 میں خواتین کو ہراسانی سے تحفظ دینے کی متعدد دفعات پر تبادلہ خیال کیا اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد اور محتسب کے ذریعے عائد کیے گئے جرمانے سے متعلق کچھ ابہام کو اجاگر کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: یونیورسٹی کی طالبات کا اساتذہ کی جانب سے ‘ہراساں‘ کیے جانے کے خلاف احتجاج

محتسب کو معمولی یا بڑا جرمانہ عائد کرنے کے استحقاق سے متعلق ایکٹ کے سیکشن 10 (2) کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے ریماکس دیے کہ پارلیمنٹ کسی بھی اتھارٹی کو نامزد کرتے ہوئے کسی قابل اتھارٹی کو منتقلی نہیں کرے گی یا بیک وقت اسی کام کو انجام دینے کے لیے متوازی اتھارٹی کا تقرر نہیں کرے گی۔

یاد رہے کہ محکمہ تعلیم کی ایک خاتون ملازم کی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں اسرار خان کی جانب سے 30 مارچ 2016 کو وزیر اعلیٰ کے شکایت سیل میں شکایت درج کروائی گئی تھی۔

2011 میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے محکمہ کے ڈائریکٹر کے پاس ملازمہ کے خلاف شکایت درج کروائی گئی تھی۔

معاملہ اے سی ای کو دیا گیا جس میں درخواست گزار کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا۔

مزید پڑھیں: اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعے کی تحقیقات کا حکم

تفتیش کے دوران اس نے مبینہ طور پر اس ملازمہ کو کچھ پیغامات ارسال کیے جس کے بعد خاتون نے 15 فروری 2018 کو اے سی ای ڈائریکٹر کو شکایت درج کروائیں۔

خاتون ملازم نے وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے ریجنل کمشنر کے پاس بھی شکایت درج کروائی تھی جنہوں نے دلائل سننے کے بعد سرکاری افسر کو درخواست گزار کو ہراساں کرنے کا قصوروار پایا اور اسے 2 مارچ 2018 کو ’معمولی جرمانے‘ کی شق کے تحت سزا دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں