میانمار: باغی گروپ کا فوجی ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 03 مئ 2021
میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف احتجاج جاری ہے—فائل/فوٹو: اے پی
میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف احتجاج جاری ہے—فائل/فوٹو: اے پی

میانمار کے طاقت ور باغی گروپوں میں سے ایک کاچن انڈیپنڈنس آرمی نے دعویٰ کیا ہے کہ فضائی کارروائی کے بعد واپس آنے والے فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا گیا۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کاچن انڈیپنڈنس آرمی کے انفارمیشن کے سربراہ ناؤ بو کا کہنا تھا کہ فوجی ہیلی کاپٹر صبح 10 بج کر 20 منٹ پر کاچن صوبے کے قصبے موئیماؤک کےنزدیک ایک گاؤں میں مارگرایا گیا۔

مزید پڑھیں: میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف احتجاج، فورسز کی فائرنگ سے 7 افراد ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ ملیٹری کونسل نے مذکورہ علاقےمیں صبح 8 بجے سے 9 بجے تک فضائی کارروائی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، جہاں فائٹر جیٹ استعمال کیے جارہے ہیں اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے فائرنگ بھی کی جاتی ہے۔

مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے گرنے کے بعد لی گئی تصاویر میں مذکورہ علاقے سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

مقامی افراد کا کہنا تھا کہ گاؤں میں فوج کی شیلنگ سے ہسپتال میں موجود 4 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ حکومت پر فوج کے قبضے کے بعد شمال اور مغرب میں سرحدی علاقوں نسلی فسادات بھی پھوٹ پڑے ہیں، ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

میانمار کے متعدد علاقوں میں مسلح عوام اور فوج کے درمیان بھی جھڑپیں جاری ہیں اور حکومتی تنصیبات کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کو راکٹ، دھماکوں اور چھوٹے اسلحے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

گزشتہ روز سرکاری نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 36 گھنٹوں کے دوران مجموعی طور پر 11 دھماکے ہوئے جن میں اکثر ینگون میں ہوئے۔

سیاسی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے حکومت پر قبضے کے بعد اب تک تقریباً 765 شہریوں کو قتل کیا۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار کے کیرن گوریلاز کا فوجی بیس پر قبضہ، حکومت کی جوابی کارروائی

دوسری جانب فوجی حکومت نے تسلیم کیا تھا کہ اپریل کے وسط پر 248 مظاہرین ہلاک ہوئے جو کشیدگی پھیلانے میں ملوث تھے۔

اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام کا کہنا تھا کہ مظاہروں اور سول نافرمانی کی تحریکوں سے میانمار کی معیشت کو بدترین نقصان پہنچ رہا ہے 2 کروڑ 50 لاکھ شہری غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔

فوجی حکومت کا کہنا تھا کہ شکایات موصول ہوئی تھیں کہ نومبر کے انتخابات میں آنگ سانگ سوچی کی جانب سے دھاندلی کی گئی ہے جس پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور اسی وجہ سے حکومت کو گرادیا گیا۔

آنگ سانگ سوچی فروری کے شروع سے ہی زیرحراست ہیں اور 75 سالہ رہنما کے ہمراہ دیگر سیاسی رہنما بھی جیلوں میں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں