وفاقی کابینہ نے صحافیوں کے تحفظ، جبری گمشدگیوں سے متعلق بلوں کی منظوری دے دی

اپ ڈیٹ 07 مئ 2021
وفاقی وزیر نے بلوں کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں — فائل فوٹو: اے پی پی
وفاقی وزیر نے بلوں کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے تحفظ اور ملک میں جبری گمشدگیوں کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے دو اہم بلوں کی منظوری دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سرکاری اکاؤنٹ کے ذریعے مذکور پیش رفت سے آگاہ کیا۔

مزید پڑھیں: کابینہ نے صحافیوں کے تحفظ کا بل منظوری سے روک دیا

انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کے تحفظ کے بل اور جبری یا غیر قانونی طور پر گمشدگی (فوجداری قانون میں ترمیم) بل کی منظوری دے دی۔

وفاقی وزیر نے بلوں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

جمعرات کو وفاقی کابینہ کا کوئی اجلاس نہیں ہوا لہٰذا قرین قیاس ہے کہ بلوں کی منظوری سرکلر نوٹی فکیشن کے ذریعے حاصل کی گئی۔

وفاقی وزیر کے مطابق اب یہ بل اپنے اگلے اجلاس کے دوران قومی اسمبلی میں پیش کیے جائیں گے۔

شیریں مزاری نے بلوں کی منظوری پر وزیر اعظم عمران خان سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) وعدوں کی پاسداری کرتی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی صحافت کو سب سے بڑا خطرہ پراسرار، نامعلوم عناصر سے ہے، سی پی این ای

مذکورہ بل کا مقصد ’صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے آزادی اظہار، تحفظ، آزادی، غیر جانبداری کو فروغ دینا اور مؤثر طریقے کار کی مدد سے اسے یقینی بنانا ہے‘۔

گزشتہ فروری میں مذکورہ بل کے بارے میں صحافتی یونینز کا کہنا تھا کہ اس عرصے میں 70 صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیا جاچکا ہے لیکن اب تک صرف 3 کیسز حل ہوئے باقی تمام کے مجرمان فرار ہیں۔

قتل کے ساتھ صحافیوں کو عوام تک معلومات پہنچانے کی ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو انجام دینے سے روکنے کے لیے تقریباً روزانہ دھمکیوں اور ڈرانے کے واقعات ہوتے ہیں۔

دوسری جانب وزرت اطلاعات کے تیار کردہ مسودے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے حکومتی ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ بل کے آغاز میں ہی کہا گیا کہ ’حکومت آئین کی دفعہ 9 کے مطابق ہر صحافی اور میڈیا پروفیشنل کے حقِ زندگی اور شخصی سلامتی کو یقینی بنائے گی اور یہ کہ ایسے کسی شخص کو ناروا سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جائے'۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں صحافیوں پر تشدد کا خاتمہ کیسے ممکن؟

خیال رہے کہ دونوں بلز میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے لیے آزاد کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا کوئی ایسا شخص ہوگا جو قانون، انصاف اور انسانی حقوق کے معاملات کی خاصی معلومات اور عملی تجربہ رکھتا ہو۔

مجوزہ قانون ’جبری یا رضاکارانہ گمشدگی، اغوا، قید یا دباؤ کے دیگر طریقوں‘ کے خلاف تحفظ کو یقینی بنائے گا اور ملک میں تنازع کا شکار علاقوں میں کسی دھمکی، ہراسانی یا حملے کے خوف کے بغیر صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ضمانت دے گا۔

علاوہ ازیں وزارت انسانی حقوق اور اطلاعات و نشریات نے صحافیوں کی بہبود کے لیے اسکیم اور معاندانہ ماحول میں کام کرنے کے لیے ان کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر صحافیوں کو صحت اور سیفٹی پروٹوکول کے ساتھ تربیت دینے کی تجویز دی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں