عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھارت میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کو عالمی صحت کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔

ڈبلیو ایچ او کی کووڈ 19 کے لیے تشکیل دی گئی ٹیم کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے بتایا کہ بھارتی نظام صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہونے والی کورونا کی قسم بی 1617 ایک عالمی خطرہ ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عالمی ادارے کی جانب سے اس حوالے سے مزید تفصیلات ایک رپورٹ میں 11 مئی کو جاری کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا 'ہم نے کورونا کی اس قسم کو عالمی سطح پر باعث تشویش قرار دیا ہے، اگرچہ ابتدائی تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہ تیزی سے پھیلتی ہے، مگر اس قسم میں موجود تبدیلیوں کے لیے ہمیں مزید تفصیلات کی ضرورت ہے، س کے لیے مزید سیکونسنگ کرنا ہوگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید تحقیق سے اس نئی قسم کی اہمیت کو مکمل طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر میں موجود کووڈ کی کسی بھی قسم سے متاثر فرد وائرس سے آپ کو متاثر کرسکتا ہے اور پھیلا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق وائرس کی کسی قسم کو اس وقت باعث تشویش قرار دیا جاتا ہے جب وہ زیادہ متعدی زیادہ جان لیوا اور موجودہ ویکسینز اور علاج کے خلاف زیادہ مزاحمت کرتی ہو۔

اس سے قبل برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117، جنوبی افریقہ میں دستیاب قسم بی 1351 اور برازیل میں دریافت قسم پی 1 کو باعث تشویش قرار دیا۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بی 1617 کو اس وقت باعث تشویش قسم قرار دیا گیا جب 8 مئی کو ایک انٹرویو کے دوران ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے کہا تھا کہ اس سم میں موجود میوٹیشنز سے اس کا پھیلاؤ بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میوٹیشن سے نئی اقسام میں دستیاب ویکسینز کے لیے مزاحمت بڑھ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا ' بی 1617 ممکنہ طور پر باعث تشویش بن جانے والی قسم ہے، کیونکہ اس میں کچھ میوٹیشنز سے اس کے پھیلاؤ کی رفتار بڑھی ہے اور ممکنہ طور پر یہ ویکسین یا بیماری سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف ویکسینز کے ذریعے موجودہ صورتحال کو قابو میں کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ویکسین بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت میں صرف 2 فیصد افراد کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 70 سے 80 فیصد آبادی کی ویکسینیشن میں کئی سال نہیں تو کئی ماہ ضرور لگ سکتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کم کرنے کے لیے طبی اور سماجی اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

سومیا سوامی ناتھن نے کہا کہ وائرس جتنی زیادہ نقول بنائے گا اور پھیلے گا، اتنا زیادہ امکان ہے کہ اس میں مزید میوٹیشنز ہوں گی۔

تاہم میوٹیشنز کے حوالے سے تشویش کے باوجود طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دستیاب ویکسینز وائرس کی اقسام اور سنگین علامات کے خلاف کچھ حد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں