فائزر/بائیو این ٹیک اور ایسٹرازینیکا/آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کووڈ ویکسینز بھارت میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کے خلاف بہت زیادہ مؤثر ہیں۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان دونوں ویکسین کی 2 خوراکوں سے کورونا کی بھارتی قسم سے ہونے والی علامات والی بیماری سے لگ بھگ برطانوی قسم جتنا ہی تحفظ ملتا ہے۔

تاہم دونوں ویکسینز کی ایک خوراک سے 3 ہفتوں بعد بھارت میں دریافت قسم کے خلاف محض 33 فیصد تحفظ ہی ملتا ہے، جبکہ برطانیہ میں دریافت قسم کے خلاف دونوں ویکسینز کی ایک خوراک سے 50 فیصد تحفظ ملتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ویکسینز ممکنہ طور پر ہسپتال میں داخلے اور اموات کی روک تھام کے لیے اس سے بھی زیادہ مؤثر ہوں گی۔

برطانیہ میں موڈرنا ویکسین کا استعمال بھی اپریل سے ہورہا ہے مگر تحقیق کے مطابق بہت کم افراد کو یہ ویکسین دی گئی تو اسے تحقیق کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر ویکسین کورونا کی دوسری خوراک استعمال کرنے کے 2 ہفتے بعد کورونا کی بھارتی قسم سے 88 فیصد تک تحفظ ملتا ہے جبکہ برطانوی قسم کے خلاف 93 فیصد تک تحفظ ملتا ہے۔

اس کے مقابلے میں ایسٹرازینیکا ویکسین کی کورونا کی بھارتی قسم کے خلاف افادیت 60 فیصد ہے جبکہ برطانوی قسم سے بچاؤ میں 66 فیصد تک مؤثر ہے۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق دونوں ویکسینز کی افادیت میں فرق کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی دوسری خوراک فائزر ویکسین کے مقابلے میں زیادہ وقفے کے بعد دی جاتی ہے۔

ڈیٹا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی افادیت کو عروج تک پہنچنے کے لیے زیادہ وقت لگتا ہے۔

تحقیق کے لیے 12 ہزار سے زیادہ کیسز کے جینوم سیکونس کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جو 5 اپریل سے 16 مئی کے درمیان کیے گئے۔

تحقیق میں 5 اپریل سے ہر عمر کے گروپ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا، یعنی اس تاریخ سے جب یہ نئی قسم برطانیہ میں دریافت ہوئی۔

ان میں سے 154 میں کورونا کی بھارتی قسم یعنی بی 1617 کو دریافت کیا گیا۔

یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر جینی ہیرس نے کہا کہ یہ حقیقی دنیا میں اس نئی قسم کے خلاف ویکسین کی افادیت کا پہلا ثبوت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں