بڑے پیمانے پر ٹیکسز میں چھوٹ سے صنعتی نمو میں تیزی آئے گی

اپ ڈیٹ 12 جون 2021
فنانس بل میں اعلان کردہ ریونیو میں ریلیف سے حکومت کا مقصد صنعتوں اور عوام کو 119 ارب روپے دینا ہے، رپورٹ - فوٹو:شٹر اسٹاک
فنانس بل میں اعلان کردہ ریونیو میں ریلیف سے حکومت کا مقصد صنعتوں اور عوام کو 119 ارب روپے دینا ہے، رپورٹ - فوٹو:شٹر اسٹاک

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے تیسرے بجٹ کا مقصد کئی صنعتوں کی لاگت کو کم کرنا ہے، اس کے ذریعے آن لائن لین دین کو ریکارڈ کرنے اور اسے سیلز ٹیکس (ایس ٹی) نیٹ کے تحت لانے کا بھی ارادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بجٹ 21-2022 میں صنعتی شعبے کے لیے کسٹمز ڈیوٹی (سی ڈی)، ایس ٹی اور انکم ٹیکس (آئی ٹی) میں غیر معمولی ریلیف اقدامات کی پیش کش کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کس طرح فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ہدف میں ایک ہزار 129 ارب روپے کے اضافے کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مجوزہ منصوبے کے مطابق فنانس بل میں اعلان کردہ ریونیو میں ریلیف سے حکومت کا مقصد صنعتوں اور عوام کو 119 ارب روپے دینا ہے۔

ان میں سے 42 ارب روپے سی ڈی میں، 19 ارب روپے ایس بی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی مد میں جبکہ آئی ٹی میں 58 ارب روپے دیے گئے ہیں۔

آئی ٹی کے تحت ریونیو اقدامات 116 ارب روپے پیدا کریں گے، اس کے بعد ایس ٹی اینڈ ایف ای ڈی سے 215 ارب روپے اور سی ڈی اقدامات سے 53 ارب روپے پیدا کیے جائیں گے۔

ریلیف اقدامات میں کٹوتی کے بعد مجموعی ریونیو 264 ارب روپے ہو گا۔

سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال 2022 میں 5.2 فیصد کی شرح سے جی ڈی پی کی نمو سے 236 ارب روپے کی پیداوار میں مدد ملے گی جبکہ متوقع افراط زر میں 8.2 فیصد سے 385 ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل کرے گا۔

مزید پڑھیں: ٹیکس استثنیٰ واپس لینے کا بِل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع

ایف بی آر کا مقصد نفاذ سے 242 ارب روپے کا اضافی ریونیو وصول کرنا ہے۔

ان تمام اقدامات کا مجموعی اثر مالی سال 2022 میں 58 کھرب 29 ارب روپے کے ہدف تک پہنچنے کے لیے ایک ہزار 127 ارب روپے ہوگا۔

صنعتی ریلیف اقدامات

ٹیکسٹائل کے شعبے کی ویلیو چین میں کپڑوں سمیت 584 ٹیرف لائنز کی درآمد پر حکومت نے مکمل طور پر سی ڈی، اضافی کسٹم ڈیوٹی (اے سی ڈی) اور ریگولیٹری ڈیوٹی (آر ڈی) کو کم یا مستثنیٰ کردیا ہے۔

اس اقدام سے ریونیو نقصانات کا تخمینہ 10 ارب روپے ہے۔

ٹیرف پالیسی بورڈ نے کیمیکل، انجینیئرنگ اور چمڑے وغیرہ کی صنعت کے لیے خام مال، کیمیکلز اور انٹرمیڈیٹ سامان سے متعلق 328 ٹیرف لائنز پر سی ڈی اور اے سی ڈی میں کمی کی تجویز پیش کی ہے۔

اس کے تحت 241 ٹیرف لائنز سی ڈی اور اے سی ڈی سے مکمل طور پر مستثنیٰ ہوں گے جبکہ 87 ٹیرف لائنز پر سی ڈی اور اے سی ڈی کو 16 فیصد، 11 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کردیا گیا ہے۔

ریگولیٹری ڈیوٹی

موبائل فونز کی درآمد پر 15 ہزار روپے بطور آر ڈی لگانے کی تجویز دی گئی ہے تاہم وزیر اعظم نے اس اقدام کی منظوری نہیں دی، اس کے ریونیو اثرات کا حساب 16 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

مقامی صنعت کو سہارا دینے کے لیے غیر ضروری / لگژری اشیا کی درآمدات کے 78 ٹیرف لائنز پر آر ڈی کو مزید بڑھا دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقتصادی سروے 21-2020: ٹیکس چھوٹ میں حکومت کو 13 کھرب کا نقصان

اس سے ریونیو کی وصولی میں 11 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔

ٹائر کی درآمد پر آر ڈی کی شرح میں 5 فیصد سے 10 فیصد تک اضافے سے 5 ارب روپے حاصل ہوں گے۔

حکومت نے ان کوٹڈ پیپر، پیپر بورڈ، نیوٹرل گلاس ٹیوبنگ اور پینسل اور کریون کی درآمد پر 10 فیصد آرڈی نافذ کردی۔

حکومت نے زیرو ریٹنگ واپس لیتے ہوئے خام تیل اور دیگر اشیا پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا۔

یہ ٹیکس حکومت کو 38 ارب روپے پیدا کرکے دے گا۔

درآمد شدہ 42 اشیائے خور ونوش میں اناج، دودھ اور کریم، فروزن گوشت، دودھ پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگایا گیا، اس سے 14 ارب روپے کی آمدنی اکٹھا کی جائے گی۔

ایف بی آر کے لیے 35 ارب روپے بڑھانے کے لیے چاندی، سونے کے زیورات، دودھ، ایل این جی / آر ایل این جی جیسی متعدد مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

ایف بی آر ای کامرس سے 11 ارب روپے اور ریٹیل سیکٹر میں چینی پر سیلز ٹیکس سے 7 ارب روپے اور پی او ایس ریٹیلرز سے 8 ارب روپے وصول کرے گا۔

انکم ٹیکس

حکومت نے بجٹ میں انکم ٹیکس کے نئے اقدامات کے لیے 551 ارب روپے کی تجویز پیش کی ہے۔

ایک آرڈیننس کے ذریعے واپس کیے گئے 65 ارب روپے کی چھوٹ اور مراعات اب فنانس بل کا حصہ بنادیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے کارپوریٹ ٹیکس چھوٹ واپس لینے کیلئے آرڈیننس پر دستخط کردیئے

بینکنگ ٹرانزیکشن، ہوائی سفر، اسٹاک ایکسچینج، سی این جی، پیٹرولیم مصنوعات، بین الاقوامی ڈیبٹ کریڈٹ کارڈ ٹرانزیکشنز، اور معدنیات نکالنے پر بارہ ود ہولڈنگ ٹیکس واپس لیے گئے۔

اس میں جائیداد کی آمدنی، سرمایہ دارانہ منافع اور کرائے پر ہونے والی آمدنی کے بلاک ٹیکس کو ختم کرکے عام ٹیکس متعارف کروانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

حکومت کا تخمینہ ہے کہ ان تینوں اقدامات سے 10 ارب روپے پیدا ہوں گے۔

سروسز کی برآمد سے آمدنی پر ایک فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی نگرانی کے لیے، کاروبار کے عمل کو آسان بنانے اور کاروباری عمل کو خود کار بنانے کے لیے 20 ارب روپے ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

اس میں مقامی بجلی کے ماہانہ 25 ہزار روپے سے زیادہ کے بل پر 7.5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی گئی تاہم فائلر ہونے کی صورت میں کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں