اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے پیش کیے گئے پاکستان اقتصادی سروے 21-2020 میں ٹیکس میں چھوٹ میں مسلسل تیسرے سال بھی اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے جس میں رواں مالی سال میں 14.36 فیصد اضافے سے 13 کھرب 14 ارب روپے کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 18-2017 میں ٹیکس چھوٹ کی مالیت 540 ارب 98 کروڑ روپے بتائی گئی تھی تاہم یہ 19-2018 میں 972 ارب 40 کروڑ ارب روپے تک جا پہنچی تھی جس کی بنیادی وجہ عام انتخابات سے قبل تمام شعبوں کو ٹیکس مراعات کی اجازت دینا تھی۔

اس کے بعد سے اگلے دو سالوں میں بھی ٹیکس چھوٹ میں زبردست اضافہ نوٹ کیا گیا۔

ریاستوں کی جانب سے ٹیکس میں چھوٹ وہ ریونیو ہے جو مختلف صنعتوں اور دیگر گروپس کو مختلف کیٹیگریز کے تحت ریاست فراہم کرتی ہے۔

رواں مالی سال میں حکومت صنعتوں اور زراعت کے شعبوں کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور نمو پر مبنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کے لیے بڑے پیمانے پر ریلیف دینے کے لیے تیار ہے۔

مزید پڑھیں: قومی اقتصادی سروے: معیشت کے استحکام کے بجائے اب نمو پر توجہ دینی ہے، وزیر خزانہ

پی ٹی آئی حکومت کی توجہ کا مرکز 3 سالوں میں معیشت کے استحکام پر تھا۔

مالی سال 21-2020 میں انکم ٹیکس چھوٹ 448 ارب 4 کروڑ روپے رہی جو 20-2019 میں 378 ارب 2 کروڑ تھی جو 18.5 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

کاروباری افراد کے لیے انکم ٹیکس میں ٹیکس کریڈٹ کی لاگت میں تھوڑا اضافہ دیکھا گیا ہے جو گزشتہ سال 104 ارب 49 کروڑ روپے تھا اور رواں سال یہ 105 ارب 34 کروڑ روپے رہا۔

سیلز ٹیکس میں چھوٹ 11.49 فیصد اضافے سے 578 ارب 45 کروڑ ہوگئی، جو 20-2019 میں 518 ارب 80 کروڑ روپے تھی جس کی بنیادی وجہ آٹھویں شیڈول کے تحت رکھی گئی مختلف مصنوعات کے کم نرخ ہیں۔

پانچویں شیڈول کے تحت زیرو ریٹنگ کی چھوٹ کی لاگت گزشتہ سال کے دوران 13 ارب 67 کروڑ روپے کے مقابلے میں کم ہوکر 12 ارب 88 کروڑ ہوگئی۔

مستقل کمی کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے 5 برآمدی شعبوں کو زیرو ریٹڈ کی فہرست سے نکال دیا ہے، سال 19-2018 میں ان پانچوں شعبوں سے ہونے والے ریونیو کا خسارہ 87 ارب روپے لگایا گیا تھا۔

سیلز ٹیکس ایکٹ کے چھٹے شیڈول کے تحت رکھی جانے والی درآمد اور مقامی سپلائی پر چھوٹ مالی سال 2021 میں گزشتہ سال کے 310 ارب 91 کروڑ روپے کے مقابلے میں 329 ارب 94 کروڑ روپے رہی جو 6.18 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتی ہے۔

چھٹا شیڈول مستثنیٰ مصنوعات کی وہ فہرست ہے جس میں زیادہ تر کنزیومر اشیا شامل ہیں۔

آٹھویں شیڈول کے تحت مصنوعات کی درآمد پر کم شرح میں چھوٹ کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

8ویں شیڈول کے تحت درآمدی اشیا کم شرح کی وجہ سے بھی لاگت میں نمو دیکھی گئی، درآمدات پر ایک فیصد جی ایس ٹی سے سرکاری خزانے کو 33 کروڑ روپے، 2 فیصد 90 ارب 28 کروڑ روپے، 5 فیصد سے 27 ارب 10 کروڑ روپے، 7 فیصد سے 49 کروڑ 60 لاکھ روپے، 8 فیصد سے ایک ارب 39 کروڑ روپے، 10 فیصد سے 69 ارب 59 کروڑ روپے اور 12 فیصد سے 19 ارب 32 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 2022 میں بالواسطہ، بلاواسطہ ٹیکسز میں اضافے کا امکان

سیلولر موبائل فون پر چھوٹ کی لاگت 27 ارب 9 کروڑ روپے رہی جو گزشتہ سال 23 ارب 15 کروڑ روپے تھی۔

ڈیوٹی میں مراعات

رواں سال کسٹمز میں چھوٹ 13.69 فیصد اضافے سے 287 ارب 77 کروڑ روپے ہوگئی جو ایک سال قبل 253 ارب 11 کروڑ روپے تھی۔

اس وقت سب سے زیادہ لاگت 5 ویں شیڈول کے تحت اشیا کی درآمد پر چھوٹ اور مراعات کی وجہ سے ہے جو گزشتہ سال کے 87 ارب 85 کروڑ روپے کے مقابلے میں 56.4 فیصد زیادہ یعنی 127 ارب 41 کروڑ روپے ہے۔

بنیادی طور پر سی پیک سے متعلقہ درآمدات میں جنرل ٹیکس مراعات میں رواں سال کمی 44.1 فیصد کمی دیکھی گئی جو گزشتہ سال کے 95 ارب 42 کروڑ روپے کے مقابلے میں 55 ارب 87 کروڑ روپے رہی۔

ٹیکس کے تناسب میں اضافہ

معاشی سروے سے پتا چلتا ہے کہ ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب رواں سال 9.6 فیصد سے 10 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

اس سے قبل مالی سال 2007 میں ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 10 فیصد کے قریب پہنچا تھا تاہم اس کے بعد سے چند استثنیٰ کے باعث 9 فیصد کے گرد رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹیکس استثنیٰ واپس لینے کا بِل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع

تاریخی طور پر ٹیکس ریونیو کی وصولی بنیادی طور پر بالواسطہ ٹیکس خصوصاً کسٹمز پر منحصر ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ بالواسطہ ٹیکسز کے حصے میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے۔

فی الحال سیلز ٹیکس کل وصولی کا 39.9 فیصد ہے جس کے بعد 38.1 فیصد حصہ بالواسطہ ٹیکسز، 15.7 فیصد کسٹمز اور ایف ای ڈی 6.3 فیصد ہے۔

مالی سال 2020 میں کسٹمز ڈیوٹی کا حصہ کم ہوا ہے جبکہ اسی مدت کے دوران بالواسطہ ٹیکسز، ایف ای ڈی اور سیلز ٹیکس کی شراکت میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں