پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے بقیہ میچوں کے آغاز کے بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز 2 دن میں مسلسل 2 بڑی شکستوں کا سامنا کرچکے ہیں اور ان ناکامیوں نے گلیڈی ایٹرز کو لیگ کے اگلے مرحلے سے تقریباً باہر کردیا ہے۔

پوائنٹس ٹیبل اور لیگ کے اب تک کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئٹہ کے پاس آگے جانے کا موقع تو موجود ہے لیکن امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فرض کریں اگر باقی ساری ٹیمیں اس حساب کتاب کے مطابق بھی چلتی رہیں تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو اپنے اگلے تینوں میچ جیتنا ہوں گے جو اب لگ بھگ ناممکن لگ رہا ہے۔

جہاں ایک طرف اس ٹیم کو 2 دن میں مسلسل 2 بڑی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، وہیں پشاور زلمی کے میچ سے پہلے ٹیم کے مالک ندیم عمر کی ٹوئیٹ بھی کافی مایوس کن تھی۔

ندیم عمر کرکٹ کی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ انہوں نے ٹوئیٹ میں شکست کی مکمل ذمہ داری قبول کی اور ساتھ ہی اگلے 10 سال ٹیم کی جانب سے بہترین کارکردگی دکھانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب ان کی ٹیم ابھی ٹورنامنٹ سے باہر نہیں ہوئی تھی ایسا ٹوئیٹ کھلاڑیوں اور انتظامیہ کا حوصلہ مزید پست کرنے والا نہیں تھا؟

اگرچہ گزشتہ برس گلیڈی ایٹرز پوائنٹس ٹیبل پر آخری پوزیشن پر رہے، لیکن اس سال بھی وہی سب کچھ دیکھنے کی بالکل امید نہیں تھی بلکہ خیال تھا کہ ہمیں یہ ٹیم ایک بار پھر اپنے ماضی کے شاندار رنگ میں نظر آئے گی۔ لیکن اس بار نہ سرفراز کی قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور نہ ہی سرفراز کی کپتانی میں وہ سمجھ بوجھ نظر آئی۔ سرفراز مسلسل 6 ٹاس ہار گئے اور اہم مواقع پر 2 میچوں میں آندرے رسل اور فاف ڈوپلیسی کو ان فٹ ہوکر باہر جانا پڑا۔

مزید پڑھیے: ملک بدلا، شہر بدلا، نہیں بدلی تو گلیڈی ایٹرز کی کارکردگی نہیں بدلی

اگر پشاور کے خلاف میچ پر بات کی جائے تو محمد نواز اور محمد حسنین نے باؤلنگ کا اچھا آغاز کیا اور پاور پلے کے بعد تک باؤلرز زلمی کے بیٹسمینوں پر حاوی تھے لیکن پھر ڈیوڈ ملر کی اچھی فارم نے صورتحال کو بدتریج تبدیل کرنا شروع کردیا۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ ڈیوڈ ملر کا آغاز سست رہا تھا، بلکہ جب انہوں نے اپنا پہلا چھکا لگایا تو اس وقت ان کا اسکور 20 گیندوں پر محض 15 رنز ہی تھا، لیکن ایسی ابتدا وہی بیٹسمین برداشت کرسکتا ہے جس کے پاس ملر کی طرح تسلسل کے ساتھ باؤنڈریز لگانے کی صلاحیت موجود ہو۔ بس پھر جب وہ ایک بار سیٹ ہوگئے تو چوکے اور چھکے اتنی آسانی سے لگ رہے تھے جیسے سامنے کلب لیول کے باؤلرز موجود ہوں۔

اس موقع پر مسلسل اسپنرز کا استعمال بھی غلط ثابت ہوا۔ کیمرون ڈیلپورٹ کو دیر سے باؤلنگ دینا اور حسنین کی دوبارہ طلبی میں تاخیر کے سبب گلیڈی ایٹرز کی گرفت کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی۔ ان مسلسل غلط فیصلوں کو دیکھ کر لگ رہا جیسے شاید قومی ٹیم کے بعد سرفراز احمد کی گلیڈی ایٹرز کی قیادت کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔

گلیڈی ایٹرز کی مسلسل ناکامیوں میں بیٹسمینوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ ابوظہبی میں کھیلے گئے دونوں میچوں میں جہاں مخالف بیٹسمین آسانی سے اسکور کرتے رہے وہیں گلیڈی ایٹرز کی جانب سے کوئی بھی کھلاڑی بڑی اننگ نہ کھیل سکا۔

اعظم خان کی دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے لیے قومی ٹیم میں سلیکشن ہوچکی ہے تاہم وہ اس ٹورنامنٹ میں صرف ایک ہی اچھی اننگ کھیل سکے ہیں۔ عثمان خان جنہوں نے اپنے پہلے میچ میں ایک دھواں دار اننگ کھیلی تھی، وہ بھی بجھے بجھے نظر آئے۔ دوسری جانب صائم ایوب ایک اچھے نوجوان بیٹسمین ضرور ہیں لیکن ابھی شاید ٹی20 لیگ کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ گیند کو اچھا ٹائم تو کرلیتے ہیں لیکن سست روی سے بیٹنگ کے باعث مطلوبہ رن ریٹ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ گلیڈی ایٹرز کو عمر اکمل اور شین واٹسن کی کمی ابھی تک محسوس ہورہی ہے۔

پھر اس ٹیم کا جو مضبوط شعبہ تھا، یعنی باؤلنگ، وہاں بھی کافی خراب صورتحال رہی۔ زاہد محمود ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین باؤلنگ کرتے رہے ہیں تاہم لگتا ہے کہ ابوظہبی میں لائن و لینتھ بھلا بیٹھے ہیں۔ گلیڈی ایٹرز کی باؤلنگ اس حد تک خراب رہی کہ گزشتہ میچ میں یونائیٹڈ نے ان کے خلاف پی ایس ایل میں پاور پلے کا سب سے بڑا اسکور کردیا۔

زلمی کے خلاف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے لیے میچ کی واحد مثبت چیز ایمرجنگ کھلاڑی خرم شہزاد کی باؤلنگ تھی، جنہوں نے 4 اوورز میں صرف 22 رنز دیکر ڈیوڈ ملر کی اہم ترین وکٹ حاصل کی۔

پشاور زلمی کے لیے اس میچ میں اہم ترین خبر ڈیوڈ ملر کی بڑی اننگ سے بھی زیادہ کامران اکمل کی فارم میں واپسی تھی۔ لیگ کی ابتدا سے ہی کامران اکمل زلمی کے لیے کامیابی کا استعارہ رہے ہیں، مگر اس پورے سیزن میں وہ بالکل بے رنگ نظر آرہے تھے۔ یعنی اگر گلیڈی ایٹرز سے پہلے ہونے والے میچوں کا تذکرہ کریں تو اس سیزن میں کامران اکمل کی سب سے بڑی اننگ 37 رنز پر مشتمل تھی، مگر اس میچ میں انہوں نے 59 رنز کی اننگ کھیل کر مخالف ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ ساتھ ان کی فارم میں واپسی زلمی کے لیے اگلے میچوں میں بھی اہم ثابت ہوسکتی ہے۔

لیکن کامران اکمل کے اوپننگ پارٹنر حیدر علی اپنی ناکامیوں کے سفر کو اب تک روکنے میں ناکام ہیں اور قلندرز کے خلاف جہاں انہوں نے صرف 3 رنز بنائے تھے، تو کوئٹہ کے خلاف وہ پہلی ہی گیند پر صفر پر آؤٹ ہوگئے۔

یہ گزشتہ برس کی بات ہے جب نوجوان حیدر علی نے پی ایس ایل میں اپنی جارحانہ بیٹنگ کے ذریعے خود کو دنیا کے سامنے متعارف کروایا تھا۔ پھر بات آگے بڑھی، حیدر علی کی قومی ٹیم میں سلیکشن ہوئی اور انگلینڈ کے خلاف انہیں آخری ٹی20 میں ڈیبیو کرنے کا سنہری موقع بھی میسر آگیا اور اپنے پہلے ہی میچ میں انہوں نے زبردست نصف سنچری اسکور کرکے اپنے انتخاب کو بالکل درست ثابت کردیا۔

مزید پڑھیے: قلندرز بمقابلہ یونائیٹڈ: وہ غلطیاں جو دونوں ٹیموں کو دور کرنی ہوں گی

بعدازاں جب انہوں نے زمبابوے کے خلاف ایک اور نصف سنچری بنائی تو اس وقت لگ رہا تھا کہ یہ نوجوان اب پاکستان کا مستقبل ہے۔ لیکن اس کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے، رنز بننا بند ہوئے تو بیٹنگ پوزیشن بدلی گئی لیکن کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ رنز نہ بننے سے زیادہ مایوس کن حیدر کا مسلسل اسکوائر لیگ سے مڈوکٹ کے درمیان کیچ دینا ہے۔ اب لگتا ہے کہ حیدر علی کا ہر میچ اور کھیلا گیا ہر شاٹ انہیں کامیابی کے راستے سے دُور کرتا جا رہا ہے۔

بہرحال کامران اکمل اور ملر کی شاندار بیٹنگ کی بدولت زلمی مقررہ 20 اوورز میں 197 رنز بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس ہدف کو دیکھتے ہی یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ کوئٹہ کے لیے یہ میچ جیتنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے، لیکن بیٹسمینوں نے جس خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس کی قطعی امید نہیں تھی۔

62 رنز کا شاندار آغاز ملنے کے بعد اب سکون اور اطمینان سے آگے بڑھنے کی ضرورت تھی، لیکن شاید گلیڈی ایٹرز کے بیٹسمنوں کو کوئی بہت ضروری کام یاد آنے لگ گئے کیونکہ ایک وکٹ گرنے کے بعد تو جیسے پوری بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ ایک طرف 62 رنز کا آغاز اور پھر 123 رنز پر پوری ٹیم آؤٹ، سچ پوچھیے تو ابھی تک اس بارے میں یقین نہیں آرہا۔ زلمی کے باؤلرز اتنی خوبی سے واپس آئے کہ محمد عرفان نے ایک اوور میں 3 اور عمید آصف نے ایک اوور میں 2 وکٹیں حاصل کرلیں۔

اس میچ کے بعد جہاں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے آگے جانے کا امکانات معدوم ہو گئے ہیں وہیں پشاور زلمی کے اگلے مرحلے میں رسائی کا امکانات روشن ہو چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں