ای او بی آئی اسکینڈل: عدالت کی ایف آئی اے کو ملزمان کےخلاف کارروائی کی اجازت

اپ ڈیٹ 17 جون 2021
درخواست گزاروں نے ایف آئی اے انکوائری کو چیلنج کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی
درخواست گزاروں نے ایف آئی اے انکوائری کو چیلنج کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو 29 کروڑ روپے مالیت کے اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) سرمایہ کاری اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگری نے ایف آئی اے کی جانب سے ای او بی آئی کے 29 کروڑ روپے مالیت کے حصص کی خریداری میں جاری انکوائری کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو خارج کردیا۔

مزید پڑھیں: ای او بی آئی کرپشن اسکینڈل کا مرکزی ملزم گرفتار

درخواستیں امیٹیکس پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک خرم افتخار، خرم شہزاد اور دو مارکیٹ سیکیورٹیز کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

درخواست گزاروں نے ایف آئی اے انکوائری کو چیلنج کیا تھا۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹو خرم افتخار نے ایف آئی اے کے روبرو پیش ہو کر اپنی کمپنی میں ای او بی آئی کی سرمایہ کاری کے سلسلے میں یکم دسمبر 2011 کو بیان قلمبند کرایا۔

کمپنی کے ڈائریکٹرز کو 2013 میں ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے سے نوٹس موصول وہا۔

درخواست گزار ایک مرتبہ پھر انکوائری میں ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے بیانات قلمبند کروائے۔

ایف آئی اے نے تیسری انکوائری شروع کی اور اس کے نتیجے میں 31 دسمبر 2015 میں پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 409 ، 109 اور 34 کے تحت آیف آئی اے پولیس اسٹیشن کراچی میں ایف آئی آر درج کرلی گئی۔

درخواست گزاروں کے وکیل حسنین کاظمی اور سلمان اسلم بٹ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مختلف عوامی اداروں کی جانب سے ان کے مؤکلوں کو غیر ضروری طور پر ہراساں کیا جارہا ہے اور ایف آئی اے، کمپنیوں کی ساکھ کو کافی غیر معمولی نقصان پہنچا رہی ہے۔

علاوہ ازیں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے وکیل نے عدالت کے دائرہ اختیار کو بھی اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ حصص کی فروخت کا موضوع سندھ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کیونکہ تمام امور کراچی میں انجام پائے۔

یہ بھی پڑھیں: ای او بی آئی کا پینشن، واجبات کی مد میں 5 ارب روپے ادا کرنے کا اعلان

ای او بی آئی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ چونکہ کراچی میں انکوائری کی گئی تھی، کراچی میں ایف آئی آر درج کی گئی اور چالان بھی کراچی میں مجاز دائرہ اختیار کی عدالت میں پیش کیا گیا لہٰذا اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس اس معاملے پر فیصلہ سنانے کا کوئی اختیار نہیں۔

دوسری جانب ایف آئی اے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزار تحقیقات میں شامل ہوئے ہیں اور نہ ہی مجاز عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

ایف آئی اے کے مطابق حتمی چالان 22 مئی 2017 کو خصوصی جج سینٹرل دوم، کراچی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

استغاثہ کے مقدمے کے مطابق ای او بی آئی نے 16 اگست 2010 کو امیٹیکس پرائیویٹ لمیٹڈ کے ایک کروڑ 17 لاکھ حصص 22 کروڑ 71 لاکھ 2 ہزار 818 روپے میں خریدے تھے جو فی کس حصص 19 روپے 37 پیسے کا تھا۔

اس کے بعد ای و بی آئی نے ایک مرتبہ پھر 27 اگست 2010 کو ایمٹیکس لمیٹڈ کے 56 لاکھ 50 ہزار حصص خریدے جو 11 کروڑ سے زائد رقم کے تھے اور فی حصص 19 روپے 51 پیسے کا تھا۔

مزید پڑھیں: 18ویں ترمیم کے بعد سے ای او بی آئی کے فنڈز میں مسلسل کمی

یہ حصص اس وقت کے ڈی جی انویسٹمنٹ کنور خورشید وحید اور اس وقت کے ای او بی آئی کے چیئرمین ظفر اقبال گوندل پر مشتمل ای او بی آئی کی انویسٹمنٹ کمیٹی کی سفارش اور منظوری پر خریدے گئے تھے۔

فی شیئر کی موجودہ قیمت 2 روپے 73 پیسے ہے۔

ایف آئی اے نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ درخواست گزار ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں ہوئے تھے اور انہیں مفرور قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں