سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور کے بلڈرز کو خریداروں کی رقم 3 ماہ میں واپس کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 20 جون 2021
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ غیر قانونی تعمیر ہونے کی وجہ سے سروس روڈ بلاک ہوچکا ہے—فائل فوٹو: بشکریہ آن لائن
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ غیر قانونی تعمیر ہونے کی وجہ سے سروس روڈ بلاک ہوچکا ہے—فائل فوٹو: بشکریہ آن لائن

کراچی: سپریم کورٹ نے 15 منزلہ نسلہ ٹاور کے بلڈرز کو رہائشی اور تجارتی یونٹس کے رجسٹرڈ خریداروں کو 3 ماہ کے اندر رقم واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں دعویدار بینک ریٹ پر مارک اپ کا دعویٰ کرسکتے ہیں اور حکم پر عملدرآمد کے لیے عدالتی کارروائی کا آغاز کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا نسلہ ٹاور گرانے کا حکم

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 16 جون کو سروس روڈ کی اراضی پر 15 منزلہ عمارت کو منہدم کرنے کا حکم دیا تھا۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تمام متعلقہ ایجنسیز اور محکموں کی جانب سے جمع کرائے گئے تمام ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نسلہ ٹاور تجاوزات والی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ غیر قانونی تعمیر ہونے کی وجہ سے سروس روڈ بلاک ہوچکا ہے۔

بینچ نے کراچی کمشنر کو ہدایت کی کہ وہ تمام افراد کو عمارت سے نکالیں اور فوری طور پر اسے اپنی تحویل میں لیں اور انہدام کے عمل کو جلد سے جلد شروع کریں اور عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 'یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 1957 میں مرکزی سڑک کی چوڑائی 280 فٹ تھی جس میں ردو بدل کیا گیا اور اس کے نتیجے میں اس کی چوڑائی 240 فٹ رہ گئی تھی اور دسمبر 1957 میں چیف کمشنر کے ایک مراسلے کے ذریعے 40 فٹ سے زیادہ کی جگہ سندھی مسلم کوآپریٹو ہاؤسنگ (ایس ایم سی ایچ ایس )کو الاٹ کردی گئی تھی'۔

مزید پڑھیں: کمشنر کراچی ربڑ اسٹیمپ ہے، چیف جسٹس کا تجاوزات کیس میں اظہار برہمی

اس میں مزید کہا گیا کہ ایس ایم سی ایچ ایس نے اضافی رقبہ مصطفائی بیگم کو الاٹ کرنے کا دعویٰ کیا اور پلاٹ کا رقبہ مبینہ طور پر 780 مربع گز سے بڑھا کر ایک ہزار 44 مربع گز کردیا گیا اور اضافی رقبے کو نہ تو اصل / ترمیم شدہ لیز میں شامل کیا گیا اور نہ ہی بعد میں ہونے والی لیز کا حصہ بنا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ موجودہ مالک نے بالآخر اسے 2015 میں کنویژن ڈیڈ کے ذریعے حاصل کیا اور ابتدائی طور پر یہ جگہ رہائشی پلاٹ کے لیے تھی لیکن 2004 میں اس وقت کی شہری حکومت نے ایک قرارداد کے تحت شاہراہ فیصل پر تمام رہائشی پلاٹوں کو کمرشل میں تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی اور اس طرح 2007 میں یہ پلاٹ رہائشی سے کمرشل استعمال میں تبدیل کردیا گیا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ٹاور کے مالکان نے دعویٰ کیا کہ اضافی رقبہ ایس ایم سی ایچ ایس نے 2010 میں ایک قرار داد کے ذریعے الاٹ کیا تھا اور اسی کو پلاٹ کے مجموعی رقبے میں شامل کیا گیا جبکہ مختارکار نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایس ایم سی ایچ ایس نے پلاٹ کے سائز میں غیر قانونی طور پر اضافہ کیا ہے۔

بلڈر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1957 میں چیف کمشنر کراچی کے اسسٹنٹ سیکریٹری کی جانب سے مرکزی کراچی ملیر روڈ (اب شاہراہ فیصل) کے دونوں طرف 20 فٹ چوڑا اراضی کی پٹی الاٹمنٹ کے حوالے سے دو مراسلے جاری کیے گئے کہ پوری مارکیٹ ویلیو کی ادائیگی پر اسے سوسائٹی کو اراضی الاٹ کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں تجاوزات کا معاملہ: سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ پیش

بینچ نے فیصلہ دیا کہ وہ ایس ایم سی ایچ ایس کے جاری کردہ مراسلوں کے حق میں دلائل قبول نہیں کرتے کیونکہ اس طرح کے مراسلے پر کسی بھی طرح سے ایس ایم سی ایچ ایس کے ذریعے لیز ڈیڈ پر عمل درآمد اور ترمیم، متبادل الاٹمنٹ کے حق میں رجسٹرڈ اور ترمیم کرنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kamran shani Jun 20, 2021 03:19pm
Builders meantime packing and ready to fly .