بلوچستان اسمبلی کے باہر ہنگامہ، اپوزیشن اراکین گرفتاری دینے تھانے پہنچ گئے

اپ ڈیٹ 22 جون 2021
اپوزیشن اراکین نے پولیس اسٹیشن میں گرفتاری دے دی— فوٹو: ڈان نیوز
اپوزیشن اراکین نے پولیس اسٹیشن میں گرفتاری دے دی— فوٹو: ڈان نیوز

قائد حزب اختلاف سمیت بلوچستان اسمبلی کے متعدد ارکان پولیس اسٹیشن میں پیش ہو گئے جن کے خلاف بجٹ سیشن سے قبل اسمبلی اور قانون سازوں پر حملہ کرنے کے الزام میں حکومتی اراکین نے ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان، اختر حسین لانگو، ملک نصیر شاہوانی، ثنااللہ بلوچ، احمد نواز بلوچ، شکیلہ نوید دیہور، میر حامل کلمتی، عزیز اللہ اور واحد صدیقی سمیت اپوزیشن کے اراکین صوبائی اسمبلی نے ایم پی اے ہاسٹل سے بجلی روڈ پولیس اسٹیشن تک مارچ کیا اور خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان اسمبلی: اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش

ان اراکین کا تعلق جمعیت علمائے اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے تھا اور ان کے ہمراہ جے یو آئی بلوچستان کے صدر اور رکن صوبائی اسمبلی مولانا عبد الواسع، ٹائٹس جانسن، بابو رحیم مینگل، اکبر مینگل، زینت شاہوانی، زابد علی ریکی، احمد نواز کاکڑ، یونس عزیز زہری، مولوی نور اللہ، مکی شام لال، سردار یحییٰ ناصر اور رحمت اللہ کاکڑ شامل ہیں۔

ایک روز قبل ہی اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایف آئی آر میں نامزد تمام اراکین اسمبلی خود پولیس اسٹیشن میں پیش ہو کر گرفتاریاں دیں گے جبکہ وہ اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ایک اور اجلاس کریں گے۔

تاہم پولیس عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اراکین اسمبلی کو حراست میں نہیں لیا جا سکتا کیونکہ اسمبلی کے ضوابط کے مطابق رکن اسمبلی کی گرفتاری سے قبل اسپیکر کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

عہدیداروں نے بتایا کہ متعلقہ اراکین صوبائی اسمبلی کو قانون سے آگاہ کیا گیا تھا اور وہ اپنی مرضی سے تھانے میں موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن صرف ملک کو آئین کے مطابق چلانے کا مطالبہ کرتی ہے، شاہد خاقان عباسی

گزشتہ ہفتے اپوزیشن اراکین اسمبلی اور ان کے حامیوں نے نئے مالی سال کے صوبائی بجٹ میں ان کے حلقوں کو نظرانداز کرنے پر بجٹ تقریر روکنے کے لیے راستہ بند کر کے بلوچستان اسمبلی کے احاطے تک رسائی روک دی تھی۔

اراکین کی پولیس اہلکاروں سے جھڑپ بھی ہوئی تھی جنہوں نے بھیڑ کو منتشر اور گیٹ کھولنے کی کوشش کی تاکہ سیشن کا آغاز ہوسکے، راستہ کھلنے کی کوئی امید نظر نہ آںے پر پولیس کی بکتر بند گاڑی کو ہاسٹل کے گیٹ سے ٹکرا گیا تاکہ راستہ صاف کیا جا سکے۔

جب وزیر اعلیٰ جام کمال خان عالیانی سمیت حکومتی اراکین عمارت میں داخل ہوئے تو مظاہرین نے ان پر جوتے اور دیگر چیزیں پھینکیں۔

ہفتے کے روز بجلی روڈ پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کی 17 دفعات کے تحت حکومت کی تحریری شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کابینہ میں اختلافات شدت اختیار کرگئے، وزیر سے قلمدان واپس لے لیا گیا

دوسرے دن اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسی تھانے میں اپنی شکایت درج کروائی اور کہا کہ وزیر اعلیٰ اور ایس پی آپریشنز کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کی شکایت پر ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں