اسلام آباد ہائیکورٹ: نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت سے متعلق فیصلہ محفوظ

اپ ڈیٹ 23 جون 2021
اسلام آباد ہائی کورٹ میں مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر پیش ہوئے—فائل/فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ میں مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر پیش ہوئے—فائل/فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی غیر موجودگی میں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت جاری رکھنے یا خارج کرنے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بنچ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: کیا ہم ملزمان کی غیر موجودگی میں اپیلوں کو میرٹ پر سن سکتے ہیں؟ جسٹس عامر فاروق

عدالت میں سماعت کے دوران مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر بھی موجود رہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما بھی موجود تھے۔

عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کیس کو خارج کرے، پاکستان کی متعدد عدالتوں کے ایسے فیصلے موجود ہیں۔

انہوں نے عدالت سے کہا کہ آپ 10 منٹ کے لیے ایک اور وکیل کو سن لیں، جس پر عدالتی معاون مخدوم حسین نے فیئر ٹرائل پر دلائل شروع کیے تو جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ یہ سوچ کر دلائل دیں کہ ملزم کے وکیل نہیں بلکہ عدالت کی معاونت کر رہے ہیں۔

عدالتی معاون نے کہا کہ اپیل بھی دراصل ٹرائل کورٹ کی کارروائی کا ہی تسلسل ہوتی ہے۔

اعظم نذیر تارڈ نے دلائل دوبارہ شروع کیے تو مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات پیش کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر مقدمات دیکھیں تو ان کے فیصلے 2010 سے پہلے آچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حیات بخش کیس دیکھیں یا دیگر تمام مقدمات میں دیکھا گیا کہ جو لوگ عدالت کے سامنے موجود نہیں تھے، ان کی اپیلیں خارج کردی گئیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے 2015 کا فیصلہ اور جسٹس سردار اقبال کے فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے خضر حیات کیس میں ایک بہت بڑا اور واضح فیصلہ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی سزائیں معطل

انہوں نے کہا کہ ڈھاکہ ہائی کورٹ نے بھی غیر موجود شخص کے کیس کو بند کرنے کا فیصلہ دیا تھا، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ اپیل خارج ہونے کے بعد کیا وہ دوبارہ اپیل میں جائے گا۔

اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ اگر کوئی شخص موجود نہیں اور ان کی اپیل خارج ہو جاتی ہے تو وہ دوبارہ اپیل میں جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ نے ڈھاکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی ہی پیروی کی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جو بندہ سرینڈر نہیں کرتا اس کے مقدمے کو نہیں چلایا جاتا، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دو اپیلیں ہیں ایک میں شریک ملزم ہیں جبکہ دوسرے میں نہیں ہیں، اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل بھی عدالت کے سامنے ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی بریت کے خلاف نیب اپیل میں تو ابھی نوٹس بھی نہیں ہوئے۔

اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے عدالتی معاون کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ اس وقت عدالت کے سامنے اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ہیں، ہم کورٹ آف لا ہیں اور ہم نے قانون کے مطابق دیکھنا ہے، ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اپیل کنندہ کون ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ شریک ملزمان کی اپیلوں میں وکلا موجود ہیں جو کیس میں دلائل دیں گے، انہوں نے صرف اپنے مؤکل کی حد تک دلائل دینے ہیں، اگر انہیں سن کر کوئی فائدہ اپیل کنندگان کو ملتا ہو گا تو عدالت وہ دے گی، نواز شریف کی دو اپیلیں ہیں، ایک میں شریک ملزمان بھی ہیں۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست منظور

نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس کی دونوں اپیلیں خارج کی جائیں، جو اپیل کنندگان عدالت کے سامنے اور مفرور نہیں ان کی اپیلیں عدالت سن سکتی ہے۔

بعد ازاں عدالت عالیہ نے نواز شریف کی غیر موجودگی میں اپیلوں کو آگے بڑھانے یا نہ بڑھانے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 9 جون کو سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے فریقین کے وکلا سے استفسار کیا تھا کہ کیا ہم ملزمان کی غیر موجودگی میں اپیلوں کو میرٹ پر سن سکتے ہیں جبکہ عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ اور نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیے تھے۔

قبل ازیں 25 مئی کو ہوئی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزاؤں کے خلاف دائر اپیلیں خارج کرنے کی استدعا مسترد کردی تھی اور وکلا سے دلائل طلب کرلیے تھے کہ کیا نواز شریف کی اپیل سنی جاسکتی ہے یا نہیں۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ

خیال رہے کہ 6 جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی اپیلیں خارج کرنے کیلئے نیب کی استدعا مسترد

بعد ازاں نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں 19 ستمبر 2018 کو ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

جس کے بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں