لاہور ہائیکورٹ کا کالعدم ٹی ایل پی سربراہ سعد رضوی کی فوری رہائی کا حکم

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2021
کالعدم ٹی ایل پی کے سربراہ کواپریل میں حراست میں لیا گیا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
کالعدم ٹی ایل پی کے سربراہ کواپریل میں حراست میں لیا گیا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ کے نظرثانی بورڈ نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری سے متعلق تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ وہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں ہوں تو فوری طور پر رہا کردیا جائے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد کی سربراہی میں تین رکنی نظر ثانی بورڈ نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ سرکاری وکیل کے مطابق حافظ سعد رضوی عوام کو ہراساں کرنے اور حکومت کے خلاف اقدامات میں ملوث ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی سربراہ کی نظربندی میں توسیع کی محکمہ داخلہ کی درخواست مسترد

سرکاری وکیل کے حوالے سے فیصلے میں کہا گیا کہ امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس برانچ کی ہدایت پر سعد رضوی کو نظر بند کیا گیا اور جس دن ان کو حراست میں لیا گیا، اسے پہلے نہ کوئی پولیس اہلکار شہید اور نہ ہی زخمی ہوا تھا۔

عدالت کے نظر ثانی بورڈ نے کہا کہ سعد رضوی حراست کے دوران اپنے کارکنوں سے رابطے میں نہیں تھے جبکہ ان کو حراست میں لینے سے قبل حالات بھی خراب نہیں تھے۔

فیصلے کے مطابق حکومت پنجاب نے کیس کے حوالے سے حقائق چھپائے کیونکہ پولیس اہلکاروں کے جاں بحق یا زخمی ہونے کی بات کی گئی لیکن ان دنوں میں ٹی ایل پی کے کارکنوں یا جاں بحق شہریوں کی تعداد کا حوالہ نہیں دیا گیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت نے حالات خراب ہونے کی ایک طرف کی تصویر پیش کی ہے، جس سے حکومت کی بدنیتی عیاں ہے۔

عدالت نے کہا کہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی دھرنے دیے لیکن ان پابندی نہیں لگی اور نہ ہی ان کے سربراہان کو نظر بند کیا گیا۔

تفصیلی فیصلے میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ ماضی میں پی ٹی آئی کے سربراہ اور اراکین نے 120 دن دھرنا دیا، کیا ان کی نظر بندی ہوئی لیکن حکومت کے وکیل نظر بندی کے حوالے سے کوئی دستاویز پیش نہیں کر سکے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ نظر ثانی بورڈ سمجھنے سے قاصر ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے حالانکہ سرکاری وکیل کے مطابق سعد رضوی نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا اور حکومت کو ڈکٹیٹ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی کو لاہور میں گرفتار کر لیا گیا

لاہور ہائی کورٹ کے نظر ثانی بورڈ نے کہا کہ یہی مطالبہ کئی اراکین اسمبلی نے بھی کیا لیکن ان کے خلاف تو کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

بورڈ نے مزید کہا کہ حافظ سعد رضوی دو ماہ 20 دن سے نظر بند ہیں اور ان کے خلاف 9 مقدمات درج کیے گئے ہیں، مقدمات میں گرفتاری نہ ڈالنا پولیس کی بدنیتی کو ثابت کرتا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت صرف خدشات کی بنیاد پر نظر بندی میں توسیع چاہتی ہے، اس مقصد کے لیے مواد فراہم نہیں کیا گیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی نظر ثانی بورڈ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں واضح کیا کہ حکومتی استدعا مسترد کی جاتی ہے اور اگر سعد رضوی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں انہیں رہا کر دیا جائے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں لاہور ہائی کورٹ کے جائزہ بورڈ نے پنجاب کے محکمہ داخلہ کی جانب سے کالعدم ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کی نظربندی میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تھی، جس کے بعد ان کی رہائی کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل صوبائی جائزہ بورڈ نے بند کمرے میں سماعت کی تھی جہاں محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے ٹی ایل پی سربراہ کی نظربندی میں توسیع کی درخواست پر سماعت کی گئی۔

سعد حسین رضوی کو 12 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اکسایا تھا کیونکہ ان کے بقول حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔

اس سے قبل فرانس میں حضور نبی اکرمﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد تحریک لبیک پاکستان حکومت پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی کیونکہ فرانسیسی صدر کی طرف سے ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی حمایت کی گئی تھی۔

گزشتہ سال نومبر میں ٹی ایل پی اور حکومت کے مابین طے پانے والے معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپریل میں قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا تھا تاکہ اس معاملے کو تین ماہ میں طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی رائے لی جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان کالعدم قرار، نوٹیفکیشن جاری

16 فروری کی ڈیڈ لائن قریب آتے دیکھ کر حکومت نے معاہدے پر عمل درآمد پر معذوری ظاہر کرتے ہوئے مزید وقت طلب کیا تھا، اس کے بعد ٹی ایل پی نے اپنا احتجاج ڈھائی ماہ 20 اپریل تک مؤخر کردیا تھا۔

ڈیڈ لائن کے اختتام سے ایک ہفتہ قبل سعد نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کے کارکنوں سے کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو وہ لانگ مارچ کے لیے تیار رہیں اور اس پیغام کے بعد حکومت نے 12اپریل کو ٹی ایل پی سربراہ کو گرفتار کر لیا تھا۔

لاہور کے وحدت روڈ پر دوپہر 2 بجے کے قریب پولیس نے سعد رضوی کو ایک جنازے میں شرکت کے بعد واپسی کے دوران گرفتار کیا تھا جس کے نتیجے میں مشتعل مظاہرین کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

اگلے ہی دن پولیس نے ٹی ایل پی سربراہ کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی اور مقدمے کے اندراج کے چند گھنٹوں کے اندر ہی مظاہرین لاہور میں سڑکوں پر نکل آئے اور متعدد مقامات پر گرینڈ ٹرنک روڈ بلاک کردیا تھا۔

اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور دھرنے کے بعد حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کردی تھی اور حکومت نے نقص امن کے خطرے کے پیش نظر سعد کو حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں