راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل میں سابق کمشنر، لینڈ کلیکٹر گرفتار

اپ ڈیٹ 15 جولائ 2021
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ رنگ روڈ میں تبدیلی سے 50 سے زیادہ بااثر افراد نے فائدہ اٹھایا — فوٹو: ڈان نیوز
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ رنگ روڈ میں تبدیلی سے 50 سے زیادہ بااثر افراد نے فائدہ اٹھایا — فوٹو: ڈان نیوز

لاہور: پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے رنگ روڈ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں راولپنڈی کے سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود اور سرکاری مقصد کے لیے زمین حاصل کرنے والے (لینڈ کلیکٹر) عباس تابش کو گرفتار کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے سی ای کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) گوہر نفیس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے سابق کمشنر و ڈائریکٹر اور لینڈ کلیکٹر کے خلاف تفصیلی تحقیقات کرنے کے بعد مقدمہ درج کیا گیا۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کی نئی تحقیقات کا حکم

انہوں نے کہا کہ رنگ روڈ منصوبے میں تبدیلی کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب سے منظوری لی گئی اور نہ ہی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) سے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) لیا گیا۔

گوہر نفیس نے کہا کہ نئے انٹرچینجز کو شامل کرنے کے لیے منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی اور اس روڈ کی لمبائی 22 کلو میٹر سے بڑھا کر 68 کلو میٹر کردی گئی تھی جس میں سے آخری دو کلو میٹر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے تحت آئے گی۔

علاوہ ازیں ذرائع نے دعویٰ کیا کہ رنگ روڈ میں تبدیلی سے 50 سے زیادہ بااثر افراد، رئیل اسٹیٹ ڈیلرز اور اس منصوبے سے وابستہ لوگوں کو فائدہ ہوگا، جو 64 ہزار کنال اراضی خرید چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: رنگ روڈ اسکینڈل: وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری مستعفی

ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی کابینہ کے کچھ اراکین مبینہ طور پر رنگ روڈ اسکینڈل سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔

اس رپورٹ کے بعد اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق وزیر اعظم کے معاون خصوصی (ایس اے پی ایم) زلفی بخاری کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا جبکہ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے ایک پریس کانفرنس میں اس الزام کی تردید کی تھی۔

اے سی ای کے تحت رنگ روڈ اسکینڈل انکوائری کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اصل منصوبے کو تبدیل کردیا گیا تھا اور متعدد ہاؤسنگ سوسائٹیز کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس میں متعدد نئے راستے شامل کیے گئے، تبدیلی سے منصوبے کی لاگت 25 ارب روپے ہوگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے رنگ روڈ منصوبے کو 2018 میں منظور کیا تھا اور اسے راولپنڈی کے سابق کمشنر محمود نے تبدیل کیا تھا۔

مزید پڑھیں: رنگ روڈ اسکینڈل: زلفی بخاری نے کمشنر راولپنڈی کو ہتک عزت کا نوٹس بھیج دیا

ان کا کہنا تھا کہ تبدیلی کے نتیجے میں اس منصوبے اور زمین کے اخراجات میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ زیروک نامی ایک نجی کمپنی سے منصوبے میں تبدیلی اور پلوں کی ڈیزائننگ کے لیے خدمات حاصل کی گئیں، لیکن اس سلسلے میں حکومت سے اجازت نہیں لی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ منصوبے کے ڈائریکٹر نے دعویٰ کیا کہ جلد ہی وزیر اعلیٰ سے اجازت لی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ بغیر کسی اجازت کے منصوبہ نیسپاک کو دے دیا گیا۔

علاوہ ازیں گوہر نفیس نے کہا کہ تبدیلی کی وجہ سے سی ڈی اے کی زمین کو منصوبے میں شامل کیا گیا تھا اور اجازت کے بغیر ہی اشتہار جاری کردیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ رنگ روڈ میں کسی نئے حصے کو شامل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا اور سڑک میں تبدیلی سے قبل 2 ارب 60 کروڑ روپے کی اراضی خریدی گئی۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نیب نے لاہور رنگ روڈ میں مبینہ کرپشن کا نوٹس لے لیا

گوہر نفیس نے مزید کہا کہ حکومت نے بعد میں اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے پنجاب رنگ روڈ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا لیکن کمشنر اس پر کام کرتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ اٹک میں غیر مجاز شخص سے مہنگی زمین خریدی گئی جبکہ راولپنڈی میں اراضی کی خریداری پر کم رقم خرچ کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹک کے رہائشیوں سے مہنگی اراضی کی خریداری کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے جس کی وجہ سے خزانے کو بڑا نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ سابق کمشنر اور لینڈ کلیکٹر کو حراست میں لیا گیا اور ان لوگوں سے بھی تفتیش کی جارہی ہے جنہوں نے اس اسکینڈل سے فائدہ اٹھایا اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں