کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے ایک اور طویل المعیاد پیچیدگی کا انکشاف

24 جولائ 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے اور اب ماہرین نے ایک اور پیچیدگی کے خطرے کی جانب نشاندہی کی ہے۔

کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کو بیماری کو شکست دینے کے بعد مہپینوں تک ہائی بلڈ شوگر کے طویل المعیاد مسئلے کا سامنا ہوسکتا ہے۔

یہ بات اٹلی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وبا کے آغاز کے دوران ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے لگ بھگ نصف مریضوں میں ہائی بلڈ شوگر کی تشخیص بیماری کے کئی ماہ بعد ہوئی۔

یہ افراد پہلے سے بلڈ شوگر کے مریض نہیں تھے مگر علاج کے دوران 46 فیصد مریضوں میں ہائی بلڈ شوگر کے نئے مسئلے کو دریافت کیا گیا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ بیشتر افراد کا یہ مسئلہ تو حل ہوگیا مگر بلڈ شوگر کے 35 فیصد نئے مریضوں میں یہ مسئلہ بیماری کے بعد بھی کم از کم 6 ماہ تک برقرار رہا۔

اس تحقیق میں مارچ سے مئی 2020 کے دوران اٹلی کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ کے 551 مریضوں کا تجزیہ کیا گیا تھا اور ان کی مانیٹرنگ ہسپتال میں داخلے کے 6 ماہ بعد تک جاری رکھی گئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن مریضوں میں گلوکوز کے افعال کے مسائل کی کوئی علامات نہیں تھیں ان کے مقابلے میں بلڈ شوگر کا سامنا کرنے والے افراد کو ہسپتال میں زیادہ عرصے قیام کرنا پڑا، بدترین کلینکل علامات کا سامنا ہوا، آکسیجن کی زیادہ ضرورت پڑی، وینٹی لیشن سپورٹ اور آئی سی یو میں علاج کی زیادہ ضرورت پڑی۔

تحقیق کے آغاز میں ہسپتال میں داخلے پر کووڈ کے تمام مریضوں کو گلوکوز سنسر پہنائے گئے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ محققین نے بلڈ شوگر کا پہلی بار سامنا کرنے والے افراد کے گلوکوز افعال میں متعدد خرابیوں کو شناخت کیا۔

انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ایسے مریضوں میں ہارمونل لیولز بھی غیرمعمولی حد تک بگڑ گیا اور جسم بہت زیادہ انسولین بنانے لگا۔

محققین نے بتایا کہ اگرچہ صحتیابی کے کچھ عرصے بعد کچھ مریضوں میں گلوکوز میٹابولک مسائل میں کمی آنے لگی مگر دیگر مسائل برقرار رہے۔

متعدد مریضوں میں کھانے کے بعد گلوکوز لیول زیادہ رہنے لگا اور انسولین کے ہارمونز کے مسائل بھی ٹھیک نہیں ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان اولین تحقیقی رپورٹس میں سے ایک ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 براہ راست لبلبے پر اثرات مرتب کرتا ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ لبلبہ بھی وائرس کا ہدف ہوسکتا ہے اور طویل المعیاد بنیادوں پر مریضوں کی صحت کو متاثر کرسکتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ کے مریضوں کے لبلبے کے افعال کی جانچ پڑتال کی طویل المعیاد بنیادوں پر جاری رکھی جانی چاہیے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر میٹابولزم میں شائع ہوئے۔

یہ پہلی بار نہیں جب کووڈ 19 سے مریضوں میں بلڈ شوگر بڑھنے یا ذیابیطس کی نئی تشخیص کے درمیان تعلق کا ذکر کیا گیا۔

فروری 2021 میں طبی جریدے ڈائیبیٹس، اوبیسٹی اینڈ میٹابولزم میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 10 میں سے ایک سے زائد ( 14.4 فیصد) کورونا وائرس کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کووڈ 19 سے صحتیابی کے بعد ہوئی۔

اس تحقیق میں 8 مختلف تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جس میں 3 ہزار 711 کورونا وائرس کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ کووڈ کے مریضوں میں اس وبائی مرض کے باعث ہونے والا ورم اور انسولین مسائل ذیابیطس کے نئے کیسز کی وجہ ہوسکتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کم از کم ان میں سے کچھ کیسز میں ہوسکتا ہے کچھ مریض پہلے سے ذیابیطس کے شکار ہوں مگر اس کا علم ہونے کووڈ کے باعث ہسپتال پہنچنے کے بعد ہوا ہو۔

مگر شواہد سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 میٹابولک صحت کے مسائل کو اس حد تک بدتر کرسکتا ہے کہ مریض ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہوجائے۔

محققین کا کہنا تھا کہ جسمانی تناؤ ان ریگولیٹری ہارمونز کی سطح کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے جس سے بلڈ شوگر لیول بڑھتا ہے تاکہ جسم درپیش مسئلے کا مقابلہ کرسکے، تو ایسے افراد جو پہلے ہی ہائی بلڈ شوگر کے مسئلے سے دوچچار ہوں، ان میں ذیابیطس کا مرض تشکیل پاجاتا ہے۔

پہلے سے درپیش مسائل جیسے پری ذیابیفس، موٹاپا، انسولین کی مزاحمت یا ہائی بلڈ پریشر سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں اچانک ذیابیطس ٹائپ ٹو کی تشخیص کیوں ہوتی ہے۔

تحقیق کے مطابق ان مسائل کے نتیجے میں انسولین کے حوالے سے جسمانی ردعمل کمزور ہوتا ہے اور بلڈ شوگر کنٹرول میں نہیں رہتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں