کے-ٹو پر لاپتا ہونے والے محمد علی سدپارہ، اسنوری، موہر کی لاشیں مل گئیں

اپ ڈیٹ 26 جولائ 2021
محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیما رواں برس فروری میں کے ٹو میں لاپتا ہوگئے—فائل/فوٹو: ایلیا سیکلے
محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیما رواں برس فروری میں کے ٹو میں لاپتا ہوگئے—فائل/فوٹو: ایلیا سیکلے

کے-ٹو سرکرنے کی مہم کے دوران لاپتا ہونے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، ان کے ساتھی آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جوان پابلو موہر کی لاشیں 5 ماہ بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے خطرناک ترین مقام سے 400 میٹر دور سے مل گئیں۔

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حسین حیدری نے ایک بیان میں کہا کہ بلندی کے باعث لاشوں کو اس وقت لانا انتہائی مشکل ہے تاہم اس حوالے سے آرمی ایوی ایشن مدد کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: کے ٹو کی مہم جوئی کے دوران علی سدپارہ، ٹیم کے 2 اراکین لاپتا، تلاش جاری

انہوں نے کہا کہ جان اسنوری کی لاش ان کی اہلیہ لینا کی درخواست پر آئس لینڈ منتقل کردی جائے گی، پابلو موہر کی بہن اور والدہ نے پہلے فیصلہ کرچکی ہیں کہ ان کی لاش چلی بھیج دی جائے گی۔

قبل ازیں گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت راجا ناصر نے کہا تھا کہ محمد علی سدپارہ اور ساتھی کوہ پیما کی لاشیں ملنے کی تصدیق ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ محمد علی سدپارہ کی شناخت کر لی گئی ہے لیکن ساتھی کوہ پیما کی شناخت نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ محمد علی سدپارہ کے بیٹے کے-ٹو کیمپ فور تک پہنچ گئے ہیں اور ان سے رابطہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں کیونکہ ساجد سدپارہ والد کی جسد خاکی لانے کے مشن پر ہی کے-ٹو گئے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کے-2 مہم جوئی کے دوران لاپتا کوہ پیما علی سدپارہ کی موت کی تصدیق

گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات فتح اللہ خان نے نجی ٹی وی جیو سے بات کرتے ہوئےکہا تھا کہ صبح ایک لاش ملی تھی، جس کی شناخت جان اسنوری کے طور پر ہوئی، جو یلو اور سیاہ کپڑوں کی وجہ سے ہوئی جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ مہم کے دوران اسی رنگ کا لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری لاش دوپہر 12 بجے ملی تاہم انہوں نے تیسری لاش کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں۔

فتح اللہ خان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ تمام لاشیں کے-ٹو کے ‘بوٹل نیک’ سے 400 میٹر دور تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ تینوں لاشیں علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کی قیادت میں تلاش کرنے والی ٹیم نے برآمد کی ہیں، ان کی ٹیم میں کینیڈا کے فلم ساز ایلیا سیکیلے اور پاسنگ کاجی شیرپا شامل تھے۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ لاشوں تک پہنچنے کے لیے کھدائی کا کام جاری ہے اور آرمی ایوی ایشن کو تیار رکھا گیا ہے، فوج اور حکومت دونوں الرٹ ہیں اور جیسے ہی لاشوں تک پہنچیں گے تو نوٹیفائی کردیا جائے گا۔

لاشوں کی شناخت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آرمی کے فوکل پرسن نے حکومت کو آگاہ کیا کہ یلو اور سیاہ کپڑوں میں لاش جان اسنوری کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سخت موسم کے باعث لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کا فضائی آپریشن پھر معطل

ان کا کہنا تھا کہ لاشوں کی شاخت کے لیے باوثوق شخصیت ساجد سدپارہ ہوں گے کیونکہ جب 5 فروری کو کے-ٹو سر کرنے کی مہم شروع کی گئی تھی تو وہ ان تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ تھے۔

انہوں نے کہا کہ ساجد سدپارہ، سیکیلے اور کاجی شیرپا کھدائی کے عمل میں مصروف ہیں اور فوجی عہدیداروں اور فوکل پرسن کے ساتھ تھرایا سٹیلائٹ ٹیلی فون سیٹس کے ذریعے رابطے میں ہیں۔

یاد رہے کہ رواں برس فروری میں دنیا کی دوسری بلند ترین اور پاکستان کی سب سے بلند ترین چوٹی کے-ٹو (8،611 میٹر بلند) سر کرنے کی کوشش کے دوران محمد علی سدہ پارہ اور ان کے 2 ٖغیرملکی ساتھی جان اسنوری اور چلی کے جوآن پابلو موہر 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب کو بیس کیمپ تھری سے چوٹی تک پہنچنے کا سفر شروع کیا تھا۔

موسم سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی مہم میں شامل تینوں کوہ پیماؤں کا 5 فروری کی کی رات کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور اس کے بعد وہ لاپتا ہوگئے۔

محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ بھی ان کی ٹیم کا حصہ تھا لیکن وہ 'بوٹل نیک' ( کے ٹو کا خطرناک ترین مقام جہاں کئی جان لیوا حادثے رونما ہوچکے ہیں) تک لاپتا ہونے والے تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کی وجہ سے انہوں نے مہم ادھوری چھوڑ کر بیس کیمپ 3 پر واپس آگئے تھے۔

مزید پڑھیں: محمد علی سد پارہ سمیت 3 کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل روک دیا گیا

بعد ازاں 18 فروری کو تینوں لاپتا کوہ پیماؤں محمد علی سد پارہ، جان اسنوری اور جان پابلو مہر کی موت کی سرکاری طور پر تصدیق کردی گئی تھی۔

گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت راجا ناصر علی خان نے محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ اور دیگر کوہ پیماؤں کے اہلِ خانہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں لاپتا کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق کردی تھی۔

ساجد سدپارہ نے کہا تھا کہ مجھے اور کئی انٹرنیشنل کوہ پیماوں کو یقین ہے کہ انھیں کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی پر حادثہ پیش آیا اور جس بلندی پر ممکنہ حادثہ ہوا تھا وہاں چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں