کورونا وائرس کی ڈیلٹا قسم بچوں میں بالغ افراد جتنی ہی متعدی ہوسکتی ہے۔

یہ بات امریکا سے تعلق رکھنے والے چلڈرنز ہاسپٹلز اور طبی ماہرین کی جانب سے بتائی گئی ہے۔

تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کورونا کی یہ قسم بچوں پر دیگر اقسام پر زیادہ سنگین اثرات مرتب کرسکتی ہے یا نہیں۔

چلڈرنز ہاسپٹل ایسوسی ایشن اور امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس کے ڈیٹا کے مطابق امریکا میں ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے ساتھ بچوں میں کووڈ کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ڈیٹا کے مطابق 22 سے 29 جولائی کے دوران 18 سال سے کم عمر بچوں میں 71 ہزار سے زیادہ کووڈ کیسز رپورٹ ہوئے، ہر 5 میں سے ایک نیا کیس بچوں یا نوجوانوں کا تھا۔

جونز ہوپکنز آل چلڈرنز ہاسپٹل کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے بتایا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہم مریض بچوں کی نگہداشت میں بہت مصروف رہے، وبا کے آغاز کے بعد سے ہم نے اپنے ہسپتال میں کووڈ کیسز کی سب سے زیادہ شرح کو دیکھا۔

تاہم بچوں میں ڈیلٹا سے بیماری کی شدت کے حوالے سے رپورٹس ملی جلی ہیں۔

امریکی ریاستوں کے ڈیٹا کے مطابق کووڈ سے متاثر بچوں کے ہسپتال میں داخلے کی شرح اتنی ہی ہے جتنی سابقہ اقسام کے پھیلاؤ کے دوران تھی یعنی 0.1 سے 1.9 فیصد (شرح کا انحصار ریاستوں میں کیسز کے حوالے سے تھا)۔

جونز ہوپکنز آل چلڈرنز ہاسپٹل کی نائب صدر اینجلا گرین نے بتایا کہ اگرچہ مجموعی کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے مگر کووڈ سے ہسپتال میں داخلے کی شرح پہلے جیسی ہی ہے۔

امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس کے مطابق اس بار بھی ایسا ہی نظر آتا ہے کہ بچوں میں کووڈ 19 سے بیماری کی سنگین شدت زیادہ عام نہیں۔

ممفس کے لی بون ہیور چلڈرنز ہاسپٹل کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر نک ہاشمٹ کے مطابق ماضی میں عموماً بچوں میں کووڈ کی تشخیص کسی اور طبی مسئلے کے علاج کے دوران ہوتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ کسی بیماری کے علاج کے دوران معمول کے ٹیسٹ سے کووڈ کی بغیر علامات والی بیماری کا انکشاف ہوتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مگر ڈیلٹا سے حالات میں تبدیلی آئی ہے اور حالیہ ہفتوں کے دوران ہم نے بچوں میں کووڈ کو دیکھا اور ہسپتال میں داخل کیا، انہیں نظام تنفس کی علامات اور سانس لینے میں دشواری کے باعث ہسپتال میں داخل کیا گیا۔

ان کے خیال میں ڈیلٹا میں کچھ ایسا ہے جو سابقہ اقسام سے کچھ مختلف ہے۔

مگر دیگر طبی ماہرین اس حوالے سے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے اور ان کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا سے کیسز کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے بیماری کی شدت میں اضافے کا غلط تصور کیا جاسکتا ہے۔

ایشکن اسکول آف میڈیسین کی ماہر ڈاکٹر کرسٹین اولیور نے بتایا کہ ابھی ایسا ڈیٹا موجود نہیں جس کو دیکھ کر یقین کیا جاسکے کہ ڈیلٹا قسم بچوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔

اس سے قبل جولائی 2021 میں عالمی ادارہ صحت نے بھی کورونا وائرس کی اس قسم کے بچوں میں پھیلاؤ کے حوالے سے بیان جاری کیا تھا۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا بچوں کو خصوصی طور پر نشانہ نہیں بناتی۔

عالمی ادارہ صحت کی تیکنیکی ٹیم کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے 30 جولائی کو نیوز بریفننگ کے دوران بتایا کہ اب تک کے شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے پہلے بھارت میں نمودار ہونے والی قسم ڈیلٹا ان افراد میں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے جو سماجی طور پر سرگرم ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 'مجھے واضح طور پر کہنے دیں کہ ہم نے ڈیلٹا قسم کو خاص طور پر بچوں کو ہدف بناتے نہیں دیکھا'۔

ماریہ وان کرکوف نے کہا کہ ایسا عندیہ ملا ہے کہ کورونا کی اقسام خاص طور پر بچوں کو ہدف نہیں بناتیں، ہم نے دیکھا ہے کہ یہ اقسام ان افراد کو ہدف بناتی ہیں جو سماجی طور پر بہت زیادہ سرگرم ہوتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں