چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج بننے سے ایک مرتبہ پھر انکار

اپ ڈیٹ 17 اگست 2021
وزیر اعظم کی تجویز پر صدر مملکت نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک سال کی مدت کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا تھا۔ - فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ
وزیر اعظم کی تجویز پر صدر مملکت نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک سال کی مدت کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا تھا۔ - فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ

کراچی: سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج کے طور پر تعینات کیے جانے کے اعلان کے بعد منگل کو اسلام آباد میں ہونے والی تقریب حلف برداری میں شرکت سے انکار کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی تجویز پر صدر عارف علوی نے اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک سال کی مدت کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا تھا۔

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ ہفتے پانچ میں سے چار کی اکثریت سے فیصلہ کیا تھا کہ جسٹس احمد علی شیخ کو ایک سال کی مدت کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بننے کی دعوت دی جائے بشرطیکہ وہ اس کے لیے راضی ہوں۔

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس سے قبل جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے ایک خط میں اس تاثر کو ختم کیا کہ انہوں نے کبھی ایڈہاک جج کی حیثیت سے سپریم کورٹ کی نشستوں میں شرکت کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جسٹس احمد علی شیخ نے ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ کے بینچز پر بیٹھنے سے معذرت کرتے ہوئے تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے چند گھنٹوں بعد چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد اور صدر عارف علوی کو علیحدہ خط لکھے۔

مزید پڑھیں: جے سی پی نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج نامزد کردیا

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے خط، جس کی ایک کاپی ڈان کے پاس دستیاب ہے، میں لکھا کہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے ان کے نوٹس میں لایا گیا ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے جاری ایک نوٹیفکیشن کے تحت مجھے ایڈ ہاک جج کی حیثیت سے ایک سال کی مدت کے لیے معزز سپریم کورٹ کی بینچز پر بیٹھنا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ نوٹیفکیشن اس حقیقت کے باوجود جاری کیا گیا کہ انہوں نے 'مسلسل اور بار بار سپریم کورٹ کی نشستوں میں بطور ایڈہاک جج شرکت کرنے سے انکار کیا ہے'۔

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ 'اس وجہ سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نوٹیفکیشن بغیر کسی قانونی اختیار کے جاری کیا گیا ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے'۔

جسٹس احمد علی شیخ نے کہا کہ اس قسم کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج بننے کے لیے اپنی رضامندی دینے سے واضح طور پر انکار کر دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ زبانی طور پر اور 5، 6 اور 10 اگست 2021 کے تین خطوط کے ذریعے کیا گیا۔

خطوط کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے رضامندی ظاہر کرنے پر آمادگی کا اظہار اس شرط پر کیا تھا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے مستقل جج کے عہدے پر فائز ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس پس منظر میں براہ کرم نوٹ کریں کہ میں حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہیں کروں گا جو 17 اگست 2021 کو ہونے والی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے بطور ایڈہاک جج تعیناتی کی پیشکش دوبارہ مسترد کردی

حکومتی اعلان پر تنقید کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اعزازی سیکریٹری محمد عمر سومرو نے اعلان کیا کہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اراکین صدر کی جانب سے جسٹس احمد علی شیخ کے تقرر سے متعلق ان کی رضامندی کے خلاف جاری کردہ 'غیر آئینی' نوٹیفکیشن پر (آج) منگل کو مکمل ہڑتال کریں گے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے سابق صدر رشید اے رضوی نے ڈان کو بتایا کہ سندھ بار کونسل (ایس بی سی) کے ساتھ ساتھ سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن جلد ہی سپریم کورٹ میں پٹیشنوں کا ایک مجموعہ دائر کرکے اس پیش رفت کو چیلنج کرے گی۔

ایس سی بی اے اور ایس بی سی ترقی کے خلاف مذمتی قراردادیں بھی جاری کریں گے۔

دریں اثنا چیف جسٹس گلزار نے جسٹس محمد علی مظہر سے عہدے کا حلف لیا جنہیں سندھ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی تھی۔

اس تقریب میں سپریم کورٹ کے ججز، اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان اور سینئر وکلا نے شرکت کی۔

تاہم سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے پیش نظر فل کورٹ ریفرنس منسوخ کر دیا تاکہ سبکدوش ہونے والے سینئر جج جسٹس مشیر عالم کو الوداع کیا جا سکے جو 17 اگست کو عہدے سے فارغ ہو رہے ہیں۔

جب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے ایڈہاک جج کے طور پر حلف اٹھانے سے انکار کے بارے میں سوال کیا گیا تو سینئر وکیل نے وضاحت کی کہ آئین کا آرٹیکل 206 یا آرٹیکل 209 نافذ ہوگا یا کچھ بھی نہیں ہوگا، اس کی تشریح ابھی باقی ہے۔

آرٹیکل 206 (2) استعفیٰ سے متعلق ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ ہائی کورٹ کا جج جو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرر کو قبول نہیں کرتا وہ اپنے عہدے سے ریٹائرڈ سمجھا جائے گا اور ایسی ریٹائرمنٹ پر پنشن، اس کی بطور جج سروس کی مدت اور پاکستان کی خدمت میں کل سروس کی بنیاد پر دی جائے گی۔

آرٹیکل 209 سپریم جوڈیشل کونسل سے متعلق ہے جس میں جج کو ہٹانے کے لیے اس کے خلاف درخواست دی جاتی ہے کہ جج جسمانی یا ذہنی معذوری یا بدتمیزی کی وجہ سے جج کے عہدے کے فرائض کو صحیح طریقے سے انجام دینے کے قابل نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں