کراچی: کریڈٹ کارڈ زیادہ تر پاکستانیوں کی پہنچ سے دور ہیں جبکہ 21 کروڑ 20 لاکھ عوام کے ملک میں دیگر اقسام کے پلاسٹک کارڈز مضبوطی سے قدم جما رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مارچ کے آخر میں صرف 16 لاکھ 80 ہزار کریڈٹ کارڈز اس ملک میں لوگوں کے پاس تھے جو 4 کروڑ 45 لاکھ پیمنٹ کارڈز کا 3.8 فیصد بنتا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق ڈیبٹ کارڈ مجموعی طور پر تقریباً دو تہائی بنتے ہیں جبکہ سماجی بہبود، پری پیڈ اور صرف اے ٹی ایم کارڈز کا مجموعی طور پر 32 فیصد حصہ ہے۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ میں کنزیومر بینکنگ کے سربراہ محمد انس نے کہا کہ کسی نہ کسی طرح کریڈٹ کارڈ کا حصول بینکنگ انڈسٹری کے لیے ایک چیلنج رہا ہے۔

مزید پڑھیں: آپ کو کریڈٹ کارڈ کیوں بنوانا چاہیے؟

کریڈٹ کارڈز کی مجموعی تعداد میں گزشتہ ایک دہائی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

تاہم اس کا حصہ 15 فیصد سے کم ہو کر 4 فیصد ہو گیا ہے جس کی وجہ ڈیبٹ کارڈز کی تعداد میں غیر متناسب اضافہ ہے جو 10-2009 کے بعد سے 12.1 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'آٹو اور پرسنل لون ضرورت پر مبنی پروڈکٹس ہیں جس میں نمو کا اپنا طریقہ کار ہے اور یہی وجہ ہے کہ آٹو اور پرسنل لون کے مقابلے میں کریڈٹ کارڈ کی وصولی بہت کم ہے'۔

کریڈٹ کارڈ کے قرضوں کی رقم جون کے آخر میں 55 ارب روپے یا مجموعی صارفین کی فنانسنگ کے 708 ارب روپے کا صرف 7.8 فیصد ہے۔

سالانہ بنیاد پر کریڈٹ کارڈ کے قرضوں میں تقریباً 28 فیصد اضافہ ہوا جسے انہوں نے معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دینے سے منسوب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اسٹیٹ بینک نے اس کی طرف حوصلہ افزائی کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کارڈ کے استعمال میں بڑی بہتری آئی ہے'۔

محمد انس کے مطابق کریڈٹ کارڈز کے ناقص استعمال کی بنیادی وجوہات آگاہی کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ کریڈٹ کارڈ چارجز کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں، ان میں سب سے اہم یہ عام خیال ہے کہ کریڈٹ کارڈ رکھنے والوں کو 45 فیصد تک سود کی شرح ادا کرنا پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف اس صورت میں درست ہے جب کوئی مقررہ تاریخ تک اپنا بل ادا کرنے میں ناکام رہے۔

یہ بھی پڑھیں: چھوٹے کاروبار کیلئے 60 ارب روپے کے ضمانت سے پاک قرضوں کا منصوبہ

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح سالانہ فیس بھی بہت سے لوگوں کو کریڈٹ کارڈ کے حصول سے روکتی ہے، وینیلا کریڈٹ کارڈ کی صورت میں سالانہ چارج تقریباً 3 سے 5 ہزار روپے ہوتے ہیں حالانکہ اگر صارف ایک مقررہ مدت کے اندر ایک مخصوص رقم خرچ کرتا ہے تو اسے مکمل طور پر معاف کر دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر آپ جانتے ہیں کہ یہ پروڈکٹ کیسے کام کرتی ہے تو آپ کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کرنا پڑے گا'۔

کریڈٹ کارڈ کی کم مانگ کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال شریعت کے خلاف ہے۔

یہ تاثر ایک اسلامی بینک کے سی ای او نے بھی دیا جنہوں نے ڈان کو بتایا کہ اسلامی اسکالرز اس مسئلے پر 'منقسم رائے' رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'اگرچہ چند قرض دہندگان پاکستان میں شریعت کے مطابق کریڈٹ کارڈ پیش کر رہے ہیں لیکن مجھے مصنوعات کی صداقت کے بارے میں شک ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں