‏سپریم کورٹ کا مینار پاکستان واقعے پر نوٹس، رپورٹ عدالت میں جمع

پولیس نے شناخت پریڈ کے لیے اب تک 90 ملزمان کا عدالتی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے—فوٹو: رانا بلال
پولیس نے شناخت پریڈ کے لیے اب تک 90 ملزمان کا عدالتی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے—فوٹو: رانا بلال

سپریم کورٹ نے لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ بدسلوکی کے واقعے پر لیے گئے نوٹس پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب انعام غنی نے عدالت عظمی کے انسانی حقوق سیل کو واقعے کی رپورٹ جمع کروا دی۔

‏سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل نے آئی جی پنجاب سے تفصیلات مانگی تھیں اور رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ واقعے کی جامع تحقیقات کے لیے چار خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔

آئی جی پنجاب کی طرف سے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں جمع رپورٹ میں کہا گیا کہ تفتیشی ٹیم نے جائے وقوع کا دورہ کیا، متاثرہ خاتون کا میڈیکل کروایا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 30 ویڈیوز اور 60 تصاویر اکٹھی کرکے نادرا کو شناخت کے لیے بجھوائی گئیں اور نادرا نے 9 افراد کی شناخت کی، جن کو گرفتار کیا گیا اور ان کی نشاندہی پر مزید افراد کو گرفتار کیا گیا۔

پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اب تک 92 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے جیو فینسنگ ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔

عدالت میں جمع رپورٹ کے متن کے مطابق واقعے کی شام ساڑھے 6 سے لے کر 7 بج کر 40 منٹ تک 28 ہزار سے زائد افراد کا کال ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اور سات سو سے زائد افراد کو مشکوک قرار دیا گیا۔

پنجاب پولیس نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی کہ بلا تفریق کارروائی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے، واقعے کی ہر پہلو سے مکمل تحقیقات کریں گے اور ملزمان کو سامنے لاکر مثالی سزائیں دلوائی جائیں گی۔

مزید 34 ملزمان گرفتار، 20 ملزمان جیل منتقل

لاہور پولیس نے گریٹر اقبال پارک میں خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے کیس کے سلسلے میں مزید 34 ملزمان کو گرفتار کرلیا اور گرفتاریوں کی مجموعی تعداد 126 ہوگئی ہے۔

پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس کی ٹیمیں واقعے کے تمام ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہیں۔

مزید پڑھیں: مینار پاکستان بدسلوکی کیس: 30 ملزمان کو شناخت پریڈ کیلئے جیل بھیج دیا گیا

انہوں نے کہا کہ گرفتار 15 افراد کو شناخت پریڈ کے لیے جیل بھیجا جارہا ہے۔

آئی جی پنجاب نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کو باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس ٹیموں کو مزید متحرک کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جیو فینسنگ، نادرا ریکارڈ سمیت تمام ثبوتوں اور جدید وسائل کی مدد سے ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ افسوس ناک واقعے میں ملوث ملزمان کو عدالت سے سخت سزا دلوانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے، خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے ملزمان کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔

انعام غنی نے پولیس سے کہا کہ پارکوں، بس اسٹینڈ، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں اور دیگر عوامی مقامات پر خواتین کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں اور صنفی تفریق کی بنیاد پر جرائم میں ملوث افراد کو فی الفور گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

ملزمان کی شناختی پریڈ

پولیس نے گریٹر اقبال پارک واقعے میں ملوث ملزمان مزید 20 ملزمان کو سخت سیکیورٹی کے حصار میں عدالت میں پیش کیا، پولیس نے ملزمان کے چہرے ڈھانپ کر عدالت میں پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں:مینار پاکستان دست درازی کیس: مزید 10 ملزمان گرفتار، شناختی پریڈ کیلئے جیل بھیج دیا گیا

پولیس نے ملزمان کو شناخت پریڈ کے لیے عدالتی ریمانڈ میں بھیجنے کی استدعا کی۔

جوڈیشل مجسٹریٹ فراز جاوید وڑائچ نے پولیس کی استدعا کو منظور کرتے ہوئے 20 ملزمان کو شناخت پریڈ کے لیے جیل بھیجوا دیا اور ملزمان کی جلد از جلد شناخت پریڈ کا عمل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

مینار پاکستان بدسلوکی کیس میں اب تک مجموعی طور پر 90 ملزمان شناخت پریڈ کے لیے جیل بھجوائے جا چکے ہیں۔

پولیس نے گزشتہ روز بھی لاہور کی ضلع کچہری عدالت سے مینار پاکستان پر خاتون سے بدتمیزی کے مقدمے میں 30 ملزمان کو شناخت پریڈ کے لیے جیل بھجوانے کی درخواست منظور کروائی تھی۔

مینار پاکستان پر بدسلوکی کا واقعہ

یاد رہے واقعہ 14 اگست کو اس وقت پیش آیا تھا جب خاتون اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مینار پاکستان کے قریب ویڈیو بنا رہی تھیں۔

خاتون کے مطابق انہیں لاہور گریٹر پارک میں سیکڑوں افراد نے ہراساں کیا، انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ہجوم سے بچنے کی بہت کوشش کی اور حالات کو دیکھتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ نے مینارِ پاکستان کے قریب واقع دروازہ کھول دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو بتایا گیا تھا لیکن حملہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، لوگ مجھے دھکا دے رہے تھے اور انہوں نے اس دوران میرے کپڑے تک پھاڑ دیے، کئی لوگوں نے میری مدد کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم بہت بڑا تھا۔

خاتون نے مزید بتایا کہ اس دوران ان کی انگوٹھی اور کان کی بالیاں بھی زبردستی لے لی گئیں جبکہ ان کے ساتھی سے موبائل فون، شناختی کارڈ اور 15 ہزار روپے بھی چھین لیے۔

واقعہ کا مقدمہ خاتون کی مدعیت میں 17 اگست کو لاہور کے لاری اڈہ تھانے میں درج کیا گیا۔

مزید پڑھیں: لاہور: یوم آزادی پر خاتون کو ہراساں کرنے والے سیکڑوں افراد کے خلاف مقدمہ درج

مذکورہ واقعے کا مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354 اے (عورت پر حملے یا مجرمانہ طریقے سے طاقت کا استعمال اور کپڑے پھاڑنا)، 382 (قتل کی تیاری کے ساتھ چوری کرنا، لوٹ کی نیت سے نقصان پہنچانا)، 147 (فسادات) اور 149 کے تحت درج کیا گیا ہے۔

واقعے پر وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس بھی لیا تھا اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب سے رابطہ کیا تھا۔

وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے سمندرپار پاکستانی زلفی بخاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ ‘وزیراعظم عمران ان نے لاہور میں خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ ہونے والے معاملے پر آئی جی پنجاب سے بات کی ہے’۔

بعدازاں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت واقعے پر اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا تھا جس کے بعد آئی جی پنجاب نے سینئر پولیس افسران کو واقعے میں غفلت برتنے اور تاخیر سے ردعمل دینے پر معطل کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں