صحافی ماہر معیشت و کاروبار ہیں۔
صحافی ماہر معیشت و کاروبار ہیں۔

افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہوچکا ہے اور اصل کھیل اب شروع ہوا ہے۔ اب تک تو کئی معاملات کو نظر انداز کیا جارہا تھا کیونکہ مغربی ممالک کی تمام تر توجہ ان افراد کے باحفاظت انخلا پر تھی جنہوں نے افغانستان میں ان کے ساتھ کام کیا تھا۔

لہٰذا اب پاکستان کے لیے یہاں یہ اہم ترین سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اب مغربی دنیا پاکستان سے بھی اسی طرح منہ موڑ لے گی جس طرح اس نے 1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے اختتام کے بعد منہ موڑا تھا؟

اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان پر اس کے بہت سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن اگر دانشمندانہ رائے پر عمل کیا جاتا ہے اور بائیڈن انتظامیہ انخلا کی کڑوی گولی نگلنے کے بعد بھی عملی طور پر آگے بڑھنے کے لیے پاکستان (اور افغانستان) کے ساتھ تعلقات استوار رکھتی ہے تو یہ جاننا بہت ضروری ہوگا کہ ان تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔

اگر ہم مستقبل قریب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال کے جواب سے بہت سی چیزیں وابستہ ہیں۔ اکتوبر کا مہینہ ہمارے لیے بہت اہم ہے اور اس اہمیت کی 4 وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اکتوبر میں پاکستان اپنے آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس حوالے سے سالانہ اجلاس اکتوبر کی 11 سے 17 تاریخ کے درمیان طے ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ 13 اکتوبر کو ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈ بھی مچیئور ہورہے ہیں اور حکومت اس کے ساتھ ہی مزید یورو بانڈ کے اجرا کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے تاکہ پہلے والے یورو بانڈ کی ادائیگی سے مالی ذخائر میں کمی نہ آئے۔

مزید پڑھیے: معاشی اعتبار سے وزیراعظم عمران خان کے 3 سال

تیسری وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس کے بعد 17 سے 22 اکتوبر کے درمیان ایف اے ٹی ایف کی پلینری میٹنگ بھی طے ہیں۔ یہاں اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالا جائے یا نہیں۔ جون میں ہونے والی میٹنگ میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے لیے کچھ مزید شرائط عائد کرکے معاملہ اگلی میٹنگ تک مؤخر کردیا تھا۔

اس کے علاوہ چوتھی اور شاید سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اکتوبر میں ہی شوکت ترین کی 6 ماہ کے لیے بحیثیت وزیرِ خزانہ تقرری کی مدت بھی ختم ہورہی ہے۔ انہیں اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے یا تو پارلیمان کا رکن بننا پڑے گا یا انہیں عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔

یہ تمام واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ پاکستان نے کورونا رسپانس پلان کے تحت کم شرح سود، صنعتوں کے لیے اسٹیٹ بینک سے سبسیڈائزڈ قرضے اور تعمیراتی صنعت میں کالے دھن کے استعمال کے لیے ایمنسٹی اسکیم جیسے اقدامات متعارف کروائے تھے، جن کو واپس لینا چاہیے۔ تاہم عمران خان کا خیال اس کے برعکس ہے۔ وہ مزید نمو کے خواہاں ہیں اور انہوں نے کامیاب پاکستان نامی سماجی تحفظ کا پروگرام بھی شروع کردیا ہے۔ اس سے حکومتی اخراجات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

اس نمو کی وجہ سے درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے جس سے تجارتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے۔ یوں حکومت کو بیرونی شعبے کو آگے بڑھانے کے لیے اور زرِمبادلہ کی کمی کو روکنے کے لیے قرض لینا پڑ رہا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے حکومت کی اپنی اقتصادی مشاورتی کونسل نے عالمی منڈیوں میں شرح سود کے حوالے غیر یقینی مستقبل اور بڑھتے ہوئے قرض کو دیکھتے ہوئے حکومت کو تجویز دی کہ 2 سال کے لیے بیرونِ ملک سے خریداری پر پابندی عائد کردی جائے۔

مزید پڑھیے: شوکت ترین ملکی معیشت کو کس سمت لے جانے والے ہیں؟

تو اکتوبر میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے سامنے ایک مشکل چیلنج درپیش ہوگا۔ کورونا رسپانس کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کو واپس لیے بغیر آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے لیے پاکستان کو شاید امریکا کی مدد کی ضرورت پڑے کیونکہ آئی ایم ایف پر امریکا کا اثر و رسوخ موجود ہے۔

اگر اکتوبر میں یہ پروگرام شروع نہیں ہوتا اور شوکت ترین واشنگٹن سے خالی ہاتھ واپس آتے ہیں تو موجودہ نمو کے لیے پاکستان کو بیرونی قرضوں کے حصول میں مشکل پیش آسکتی ہے، اور اسی وقت ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ مغربی دنیا خصوصاً امریکا کی نظر میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ تب تک لوگ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے آنے والے بیانات کو بہت احتیاط سے دیکھیں گے تاکہ ان اشاروں کا تجزیہ کیا جاسکے جن سے معلوم ہو کہ وہ انخلا کے بعد اس خطے کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔

یہاں شوکت ترین کو بہت ہی مشکل صورتحال کا سامنا ہوگا کیونکہ انہیں عمران خان کو اسی وقت کچھ غیر مقبول فیصلوں پر راضی کرنا ہوگا جس وقت عمران خان نے شوکت ترین کو وزیرِ خزانہ برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ ایک مشکل لمحہ ہوگا اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کا اجلاس وہ دوسرا موقع ہوگا جب مغربی دنیا اور خصوصاً امریکا کے لیے پاکستان کی حیثیت کا اندازہ ہوگا۔ اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو اس سے عالمی منڈیوں میں یہی تاثر جائے گا کہ ملک کا مالیاتی نظام شفاف نہیں ہے۔ اور یہ کوئی اچھا تاثر نہیں ہوگا۔

حکومت کی موجودہ ترجیحات کو دیکھتے ہوئے سب سے مثبت نتیجہ یہ ہوگا کہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات پر کم از کم اثر انداز ہوتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع ہوجائے، ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں اور محصولات میں اضافے کا فیصلہ مزید مؤخر ہوجائے اور پاکستان گرے لسٹ سے بھی نکل جائے۔ حکومت کی اپنی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے اگر ان سب نتائج کے علاوہ یورو بانڈ کی مچیئورٹی کے ساتھ ہی نئے بانڈ جاری کرکے مالی ذخائر کو برقرار رکھا جائے تو یہ بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔

مزید پڑھیے: حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مانے یا اگلے انتخابات کی تیاری کرے؟

لیکن اگر آئی ایم ایف کا پروگرام دوبارہ مؤخر ہوا اور پاکستان گرے لسٹ میں بھی برقرار رہا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مغربی ممالک کے لیے پاکستان اجنبی ہوتا جارہا ہے۔ اور اگر اکتوبر میں کوئی نیا وزیرِ خزانہ آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک کی معیشت اور ترقی مشکل صورتحال کا شکار ہے جو اسے کبھی نہ کبھی ہونا ہی تھا۔

ان تمام معاملات کے لیے انتظامات کو ستمبر میں ہی حتمی شکل دینی ہوگی۔ اسی دوران وزارتِ خزانہ کو آئی ایم ایف کو جائزے کے لیے خط لکھنا ہوگا، اسی دوران وزارتِ توانائی کو یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ گردشی قرضے کو قابو کرلیا گیا ہے اور قیمتوں میں اضافے کے بغیر اسے کم کرنے کا قابلِ عمل منصوبہ موجود ہے، اور اسی دوران سیاسی قیادت کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ اگر انہیں شوکت ترین کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنا ہے تو انہیں سینیٹ کی سیٹ کس طرح دلوائی جائے۔ وائٹ ہاؤس سے آنے والی فون کال پر بہت کچھ منحصر ہے اور اس فون کال کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے۔


یہ مضمون 02 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Aamina shafqat Sep 05, 2021 08:36pm
But e cha gaye