لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عائشہ کے سپریم کورٹ میں تقرر پر رضامند

اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2021
جسٹس عائشہ ملک ہائی کورٹ کی سینارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں—تصاویر لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
جسٹس عائشہ ملک ہائی کورٹ کی سینارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں—تصاویر لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عائشہ ملک ہائی کورٹ کی سینارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس 9 ستمبر کو ہوگا۔

اس پیش رفت سے باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کے کیس کے برعکس لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں جسٹس عائشہ ملک کی عدالت عظمیٰ میں ترقی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں پہلی مرتبہ ایک خاتون جج کی سپریم کورٹ میں شمولیت کا امکان

اگر سپریم کورٹ میں ترقی ہوئی تو جسٹس عائشہ ملک عدالت عظمیٰ میں پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی خاتون جج ہوں گی اور مارچ 2031 تک اپنے فرائض سر انجام دیں گی۔

دوسری جانب 9 ستمبر کو ہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالطیف آفریدی کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں ججز کی تعیناتی کے سلسلے میں 'سینیارٹی کے اصولوں کو پامال' کرنے پر ملک بھر احتجاج کی کال دی گئی ہے۔

عبدالطیف آفریدی نے حال ہی میں میڈیا کو بتایا تھا کہ احتجاج کے دن وکلا عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے منعقد کیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: بار کونسل کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی کی مخالفت

قبل ازیں 31 اگست کو اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اعلیٰ عدلیہ کی بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کو خط لکھ کر ان سے سپریم کورٹ میں ججز کے تقرر کے عمل میں تضاد سے بچنے کے لیے مشترکہ بنیادوں کی تلاش میں مدد مانگی تھی۔

پہلی خاتون جج کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کے لیے 9 ستمبر کو جوڈیشل کونسل کے اجلاس سے کچھ دن پہلے دو صفحات پر مشتمل یہ خط پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے وائس چیئرمین خوشدل خان اور ایس سی بی اے کے صدر لطیف آفریدی کو ارسال کیا گیا۔

خط میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ چونکہ ملک میں انصاف کے انتظام سے متعلق مسائل اہم ہیں اس لیے وہ بار کے اجتماعی خیالات پہنچانے کی درخواست کرتے ہیں تاکہ ان اہم آئینی معاملات کو اس عظیم پیشے کی اعلیٰ روایات کے مطابق باوقار طریقے سے حل کیا جا سکے جس کے ساتھ ہم سب کو وابستہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی شمولیت کے امکان پر ٹوئٹر صارفین کا اظہارِِ مسرت

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئین اس مسئلے پر خاموش ہے جبکہ سال 2002 کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایس سی بی اے کے کیس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ میں تقرر کے لیے سنیارٹی لازمی شرط نہیں ہے۔

پاکستان بار کونسل جوڈیشل کمشین میں اپنے اراکین کو نامزد کرچکی ہے، ایسے میں اٹارنی جنرل نے اپنے خط میں کہا کہ ان کا جے سی پی کی اگلی میٹنگ میں غور کے لیے معیارات پیش کرنے کا ارادہ ہے اور وہ کمیشن کے دیگر اراکین کو اس طرح کے معیارات کو اپنانے اور عام کرنے کے لیے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی تاکہ سپریم کورٹ میں تقرر جیسے اہم معاملے پر اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہے۔

اٹارنی جنرل نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ جے سی پی کو اعلیٰ عدلیہ میں مزید خواتین کے تقرر کی ضرورت کو تسلیم کرنا اور اس کا اعادہ کرنا چاہیے اور اس بات کی تصدیق کریں کہ سپریم کورٹ میں ایک خاتون جج کی تعیناتی کے لیے ہمیشہ کم از کم ایک نشست رکھی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں