انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ آج بھی جاری رہا اور انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 169 روپے 60 پیسے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا۔

میٹس گلوبل کے مطابق روپے کی قدر میں 46 پیسے تنزلی ہوئی اور 169 روپے 40 پیسے سے 169 روپے 60 پیسے پر پہنچا جبکہ تاجروں نے 169 روپے 50 پیسے رپورٹ کیا۔

ڈان ڈاٹ کام کو ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستتان نے بتایا کہ 'ڈالر کی حالیہ مسلسل بڑھتی ہوئی قدرد کے باعث درآمدکنندگان ایڈوانس میں کرنسی کی بکنگ شروع کر چکے ہیں اور اس کی وجہ سے انٹربینک مارکیٹ میں طلب میں اضافہ ہو گیا ہے'۔

مزید پڑھیں: روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اسٹیٹ بینک نے مداخلت نہیں کی تو ڈالر مزید مہنگا ہوجائے گا۔

دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر صبح 10 بج کر 45 منٹ پر 170 روپے 70 پیسے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔

تاجروں کے مطابق کابل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اوپن مارکیٹ میں پشاور سے کراچی تک ڈالر کی خریداری میں اچانک تیزی دیکھی گئی ہے اور اکثر دو اکاؤنٹس پر اوپن مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ڈالر کی کمی ہے اور لوگ ڈالر پاکستانی مارکیٹ سے خرید رہے ہیں کیونکہ انہیں بغیر اجازت کے 10 ہزار ڈالر ساتھ رکھنے کی سہولت دی گئی ہے۔

اسی طرح دہری شہریت کے حامل افراد افغانستان سے مصنوعات کی درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کا استعمال کرتے ہیں اور وہ اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدکر درآمدات کے لیے بینکوں میں رکھتے ہیں۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ 40 ہزار مالیت کے بونڈ کو واپس لانے کے لیے اوپن مارکیٹ سے ڈیڈلائن کی وجہ سے بھی ڈالر کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے، حکومت بونڈز کے حوالے سے 30 ستمبر آخری تاریخ مقرر کردی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بونڈ لیکویڈیٹ کرنے والے تاجر اوپن مارکیٹ سے ڈالرخرید رہے ہیں جس سے ڈالر کی مانگ میں تیزی آگئی ہے۔

روپے کی قدر میں 'وقتی استحکام'

گزشتہ روز ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 168 روپے 90 پیسے کی بلند ترین سطح پر جاپہنچا تھا۔

اس کی وجوہات سے متعلق ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا تھا کہ درآمد کنندگان کی جانب سے ڈالر کی خریداری بڑھنے اور افغانستان میں ڈالر کی اسمگلنگ کی وجہ سے مقامی سطح پر ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔

ظفر پراچہ نے کہا کہ ایکس چینج کمپنیز نے درآمدات پر کیش مارجن کی شرط عائد کرنے کی تجویز دی تھی جس کے تناظر میں بینکوں کو مرکزی بینک نے پابند کیا ہے کہ وہ بلاضرورت زائد ایل سی نہ کھولیں جس کے بعد بینکوں نے ایل سی کھولنا کم کی ہیں جس کے اثرات نے روپے کو وقتی طور پر بحال کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: درآمد کنندگان میں ڈالر کی خریداری کے رجحان سے روپے کی قدر میں کمی

انہوں نے واضح کیا تھا کہ کئی سالوں بعد ڈالر کی بلیک مارکیٹ دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور بلیک مارکیٹ میں ڈالر، اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں 3 روپے اوپر میں فروخت ہو رہا ہے۔

10 ستمبر 2021 کو ڈالر 13 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا جب یہ ریکارڈ 168 روپے 20 پیسے پر ٹریڈ کرنے کے بعد بند ہوا۔

اس سے قبل گزشتہ برس 26 اگست کو ڈالر 168 روپے 43 پیسے کی سب سے بلند سطح پر پہنچا تھا جس کے بعد کمی کا سلسلہ جاری تھا۔

تاہم بلند کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور درآمدی بل سمیت متعدد وجوہات کی بنا پر رواں برس مئی سے ڈالر کی قدر میں اضافہ جاری ہے۔

مزید پڑھیں: روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 10 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

قبل ازیں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ قدرتی بات ہے کیوں کہ مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 2 سے 3 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود ایکسچینج ریٹ نہیں بڑھا تو اس کا مطلب ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو برقرار رکھا جارہا ہے، جو مصنوعی اور ملکی معیشت کے لیے خطرناک ہے۔

مقامی کرنسی کی قدر میں تنزلی ایل این جی سمیت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو لپیٹ میں لے گی، جس سے مہنگائی اور پیداواری اخراجات بڑھ رہے ہیں، اس کے نتیجے میں اضافی اخراجات کے ساتھ برآمدات کے اضافے پر زور دینا مشکل ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں