اثاثہ جات ریفرنس: سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی ضمانت منظور کرلی

اپ ڈیٹ 21 اکتوبر 2021
انہوں نے مزید بتایا کہ ‏12 پراپرٹیز اور 5 بینک اکاونٹس کو جواز بنا کر ریفرنس بنایا گیا — فائل فوٹو: اے پی پی
انہوں نے مزید بتایا کہ ‏12 پراپرٹیز اور 5 بینک اکاونٹس کو جواز بنا کر ریفرنس بنایا گیا — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: ‏سپریم کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی ضمانت منظور کرلی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی اور خورشید شاہ کو ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ضمانت منظور کرلی۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خورشید شاہ سمیت 18 ملزمان پر فرد جرم عائد

دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل سے استفسار کیا کہ اب تک کتنے گواہان کے بیان ریکارڈ ہوئے ہیں؟

جس پر نیب کے وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ خورشید شاہ کے خلاف تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں اور ان پر 574 ایکڑ زرعی اراضی کی خریداری پر کرپشن کا الزام ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‏12 پراپرٹیز اور 5 بینک اکاونٹس کو جواز بنا کر ریفرنس بنایا گیا۔

مزیدپڑھیں: خورشید شاہ کا دو سال تک این آئی سی وی ڈی میں قیام، عدالت کی افسران کو تنبیہ

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیے کہ ‏کیا یہ زمین نہری ہے، اگر نہری ہے تو اسکی ویلیو زیادہ ہو گی۔

‏بعدازاں عدالت نے خورشید شاہ کو ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ضمانت منظور کرلی۔

سکھر کی احتساب عدالت نے 17 دسمبر کو خورشید شاہ کی آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ضمانت منظور کی تھی لیکن ان کی رہائی سے قبل ہی نیب نے احتساب عدالت کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

22 اپریل 2020 کو سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بینچ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

نیب نے 20 دسمبر کو سکھر کی احتساب عدالت میں خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس کی منظوری کی درخواست دی جس کو جج امیر علی مہیسر نے 24 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔

خورشید شاہ کی گرفتاری اور ان پر الزامات

خیال رہے کہ نیب 19 ستمبر 2019 کو پی پی پی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کیا تھا۔

31 جولائی کو نیب نے رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اگست میں تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔

30 نومبر 2020 کو سید خورشید شاہ، سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ، رکن صوبائی اسمبلی فرخ شاہ سمیت 18 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی لیکن انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

یاد رہے ذرائع نے بتایا کہ نیب کی جانب سے خورشید شاہ کو سکھر میں طلب کیا گیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے رہنما کی جانب سے یہ کہہ کر پیشی سے معذرت کرلی گئی تھی کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش ہونا تھا۔

اس سے قبل اگست میں احتساب کے ادارے نے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کے ذریعے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن پی پی پی کے رہنما نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خورشید شاہ کےخلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس سماعت کیلئے منظور

اس وقت نیب ذرائع کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات میں بتایا گیا تھا کہ ادارے نے خورشید شاہ کے خلاف بینک اکاؤنٹس، بے نامی اثاثوں اور متعدد فرنٹ مینز کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں۔

مذکورہ معاملے کی تفصیلات میں یہ بات سامنے آئی تھیں کہ خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر علاقوں میں 105 بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اس کے علاوہ پی پی رہنما نے اپنے مبینہ فرنٹ مین ’پہلاج مل‘ کے نام پر سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔

اس ضمن میں مزید بتایا گیا تھا کہ خورشید شاہ نے مبینہ فرنٹ مین لڈو مل کے نام پر 11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائیں۔

مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے اپنے مبینہ ’فرنٹ مین‘ کے لیے امراض قلب کے ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لیے الاٹ کرائی، اس کے علاوہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں مبینہ طور پر عمر جان نامی شخص کا بھی مرکزی کردار رہا جس کے نام پر بم پروف گاڑی رجسٹرڈ کروائی گئی جو سابق اپوزیشن لیڈر کے زیر استعمال رہی۔

اس کے علاوہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے اور سکھر سمیت دیگر علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو فراہم کیے گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں