’حکومت، ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا، نگرانی کیلئے کمیٹی قائم‘

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2021
انہوں نے کہا کہ قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کسی قوم کی فتح نہیں—فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کسی قوم کی فتح نہیں—فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: روہت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے کہا ہے کہ حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے درمیان فرانسیسی سفارتکار کی بے دخلی اور اس کے سفارتخانے کو بند کرنے کے معاملے پر فریقین کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے۔

اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ معاہدے کی تفصیلات آئندہ ہفتے سامنے آجائیں گی جبکہ معاملات کی نگرانی کے لیے اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور کریں گے۔

مزید پڑھیں: حکومت کی نئی ٹیم کے کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات

انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی کی وجہ سے رونما ہونے والی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے 3 رکنی کمیٹی قائم کی اور انہوں نے کمیٹی کو بااختیار بنایا اور اعتماد کا اظہار کیا۔

مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ حکومتی کمیٹی اور ٹی ایل پی کے مابین معاہدہ طے پایا گیا ہے اور اس کو سربراہ سعد رضوی کی تائید بھی حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کسی قوم کی فتح نہیں بلکہ محب الوطنی اور انسانی جان کی فتح ہے۔

مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ یہ مذاکرات کسی جبر کے ماحول میں نہیں ہوئے بلکہ سنجیدہ ماحول میں ہوئے، سب کی مشترکہ کاوششوں کا نتیجہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ ختم کرنے کیلئے ٹی ایل پی سربراہ سعد رضوی سے بات چیت جاری ہے، شیخ رشید

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو مثبت انداز میں پیش کرنا چاہیے اور ملک میں امن و امان اور عافیت کے لیے جدوجہد کی گئی ہے اس میں میڈیا کو اپنا حصہ شامل کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات مناسب وقت پر سامنے آجائیں گی اور آپ عملی نتائج دیکھیں گے، اس میں مصالحت کار کا کردار ادا کیا۔

دوسری جانب ٹی ایل پی کے مظاہرین وزیرآباد میں موجود ہیں جہاں روڈ بلاک ہیں اور موبائل سروس بھی بدستور معطل ہے۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد ٹی ایل پی کے کارکنوں نے واپسی کے لیے اپنا سامان باندھنا شروع کیا تھا لیکن انہیں ہدایت کی گئی ہے اسلام آباد میں موجود قیادت کی جانب سے جب تک اشارہ نہیں ملتا اس وقت تک جمے رہے ہیں۔

خبرایجنسی رائٹر کو ٹی ایل پی کے ترجمان نے بتایا کہ مظاہرین سامان باندھنے کے لیے تیار تھے لیکن پارٹی قیادت کی جانب سے انتظار کرنے کی ہدایات ملی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی اور حالیہ دنوں میں گرفتار کیے گئے کارکنوں کو جلد رہا کردیا جائے گا۔

مفتی منیب الرحمٰن نے بتایا کہ معاہدے کے نتیجے میں علی محمد خان کی سربراہی میں ایک اسٹیئرنگ کمیٹی بنائی گئی ہے جو اس کی نگرانی کرے گی جبکہ وزیر قانون راجا بشارت، سیکریٹری وزارت داخلہ اور صوبائی سیکریٹری وزارت داخلہ کمیٹی کے رکن ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کی جانب سے مفتی غلام غوث بغدادی، انجینئر حفیظ اللہ علوی کمیٹی کے رکن ہوں گے، کمیٹی آج ہی سے فعال ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کے احتجاجی شرکا وزیرآباد میں قیادت کی ہدایت کے منتظر

مفتی منیب الرحمٰن نے زور دیا کہ یہ معاہدہ ایسا نہیں ہے کہ دوپہر میں معاہدے طے پایا ہو اور شام کو منسوخ کردیا گیا ہو، حکومتی صفوں اور اپوزیشن میں سے جس کسی نے بھی طاقت کے استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ معاہدے پر لفظ بہ لفظ عمل درآمد ہوگا۔

مذاکرات کے دوران امن اور بہتری کا راستہ تلاش کیا گیا، وزیر خارجہ

بعدازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے علما کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملک کو ایک امتحان سے بچایا ہے، قومی سلامتی کمیٹی میں مسئلے کو حل کرنے کی ترجیح دینی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران امن اور بہتری کا راستہ تلاش کیا گیا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ انتشار میں پاکستان کا فائدہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی

وزیر خارجہ نے کہا کہ ملک کو عدم استحکام کرنے والی طاقتیں یقینی طور پر متفرق ہوں گی، اللہ نے سرخرو کیا ہے اور اب یہ معاملہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔

ساتھ ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں سے سوال لینے سے گریز کیا اور پریس کانفرنس کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے دیگر شرکا کے ساتھ رخصت ہوگئے۔

خیال رہے کہ مذکورہ پریس کانفرنس صبح 11 بج کر 15 منٹ پر شروع ہونی تھی جس کے انعقاد میں تاخیر ہوئی۔

خیال رہے کہ حکومت نے کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ ہفتے کے روز دوبارہ مذاکرات شروع کیے تھے، اس سلسلے میں تقریباً تمام سینئر ترین اور بااثر رہنماؤں کو راولپنڈی اور اسلام آباد لایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ کوششیں دوبارہ شروع کرنے کے بعد کابینہ اراکین نے بھی اپنا لہجہ نرم کرلیا تھا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیراعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کو تنظیم کے خلاف بیانات دینے سے روک دیا گیا تھا۔

ٹی ایل پی احتجاج کا پس منظر

گزشتہ برس میں فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔

تاہم مطالبات کی عدم منظوری پر تحریک لبیک نے 16 فروری کو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں مہلت ختم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر تحریک لبیک نے حکومت کو 20 اپریل کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

تاہم 12 اپریل کو سعد رضوی کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے بعد جس پر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعدازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیشِ نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

حافظ سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔

قبل ازیں یکم اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا۔

بعدازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عمل درآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔

تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو کالعدم جماعت نے اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔

بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

23 اکتوبر کو لاہور میں کالعدم ٹی ایل پی کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

بعدازاں 28 اکتوبر کو بھی مریدکے اور سادھوکے کے قریب ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 4 پولیس اہلکار جاں بحق اور 263 زخمی ہوگئے تھے۔

حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔

حکومت واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ وہ پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے کے ٹی ایل پی کے مطالبے کو پورا نہیں کر سکتی، ساتھ ہی انکشاف کیا تھا کہ ملک میں فرانس کا کوئی سفیر نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ ٹی ایل پی کو عسکریت پسند تنظیم قرار دیا جائے گا اور اسے کچل دیا جائے گا جیسا کہ اس طرح کے دیگر گروپس کو ختم کر دیا گیا ہے۔

تاہم 30 اکتوبر کو ایک مرتبہ پھر ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں