اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی شقیں آئین کے خلاف ہیں، فروغ نسیم

اپ ڈیٹ 02 نومبر 2021
آئین کسی بھی قانون سازی کی منظوری سے قبل اسٹیٹ بینک کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت کا پابند نہیں کرتا، وفاقی وزیر قانون — فائل فوٹو: ڈان نیوز
آئین کسی بھی قانون سازی کی منظوری سے قبل اسٹیٹ بینک کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت کا پابند نہیں کرتا، وفاقی وزیر قانون — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک (ترمیمی) بل 2021 میں مجوزہ دفعہ 46 بی (8) آئین کے خلاف ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) حکام کو ویڈیو لنک کے ذریعے بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس شق میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک سے متعلق کسی بھی مجوزہ قانون سازی پر مرکزی بینک سے مشاورت کی جائے گی۔

انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ قانون سازی کا اختیار آئین کی طرف سے پارلیمنٹ کو دیا گیا ہے اور آئین کسی بھی قانون سازی کی منظوری سے قبل اسٹیٹ بینک کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت کا پابند نہیں کرتا، مجوزہ سیکشن میں ایک شرط متعارف کرائی گئی ہے جو کہ آئین کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ شق بھی عدالتوں کے ذریعے ختم ہوجائے گی، کسی بھی صورت میں پارلیمنٹ خود ایسی کوئی ترمیم منظور نہیں کرے گی کیونکہ یہ غیر آئینی ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف، حکومت کا اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنانے کیلئے لچک کا مظاہرہ

انہوں نے کہا کہ اسی طرح مجوزہ سیکشن 15(1) کے تحت گورنر، ڈپٹی گورنرز یا کسی بھی غیر ایگزیکٹو ڈائریکٹرز یا مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی اراکین کو بدانتظامی کی بنیاد پر ہٹایا نہیں جاسکتا جب تک کہ کوئی عدالت پہلے یہ طے نہ کر دے کہ سنگین بدانتظامی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ شق بھی غیر آئینی ہے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 25 (شہریوں کی مساوات) میں موجود برابری کی شق کی خلاف ورزی ہے جو کہ دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ مساوی سلوک کی فراہمی یقینی بناتی ہے۔

یہاں تک کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے خلاف بھی آرٹیکل 209 کے تحت بدانتظامی کے لیے کارروائی کی جاسکتی ہے۔

سیکشن 51 اے گورنر، ڈپٹی گورنرز، ڈائریکٹرز بشمول اسٹیٹ بینک کے سابق عہدہداروں کو نیب آرڈیننس 1999 اور ایف آئی اے ایکٹ 1974 کے تحت کارروائیوں کے خلاف بلینکٹ پروٹیکشن تجویز کرتا ہے۔

ایک بار پھر انہوں نے کہا کہ یہ تجویز آرٹیکل 25 میں موجود مساوات کی شق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ دیگر قوانین کے تحت ایسا تحفظ نہیں دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ مجوزہ سیکشن 46 بی (5) ایس بی پی کے پارلیمنٹ کے ساتھ (تعلق اور بات چیت) کا بتاتا ہے جہاں لفظ ’تعلق اور بات چیت‘ بنیادی طور پر بولنے کے حق کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف سے مذاکرات پر چپ سادھ لی

آئین کے آرٹیکل 57 میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم، وفاقی وزیر، وزیر مملکت اور اٹارنی جنرل کو بولنے اور بصورت دیگر پارلیمنٹ کی کارروائی میں حصہ لینے کا حق حاصل ہوگا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک یا اس کے ورکرز پارلیمنٹ کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتے اور اسٹیٹ بینک جو وزارت خزانہ کے ماتحت آتا ہے اسے وزیر خزانہ کے ذریعے پارلیمنٹ کے ساتھ بات چیت اور رابطہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے مجوزہ سیکشن 46 بی (5) آئین کے آرٹیکل 57 سے متاثر ہوگا۔

وزیر نے وضاحت کی کہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے جس سے آئین میں ترمیم کی جاسکے۔

اس طرح مجوزہ ایس بی پی ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں بہت سے مراحل سے گزرنا پڑے گا اس سے پہلے کہ یہ حتمی طور پر منظور ہو سکے اور اس میں چار سے سات ماہ لگیں گے اس لیے 17 دسمبر سے پہلے بل کی منظوری ممکن نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح 17 دسمبر تک یا اس سے پہلے بل کی منظوری کو آئی ایم ایف کی طرف سے ’ترجیحی شرط‘ کے طور پر نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں