کووڈ سے متاثر ماؤں کا دودھ ان کے بچوں کو اس بیماری سے بچانے میں مددگار، تحقیق

04 نومبر 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 کا شکار ہونے والی خواتین اپنے دودھ کے ذریعے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بچوں تک منتقل کرتی ہیں۔

یہ بات اٹلی میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

یہ بات پہلے ہی ثابت شدہ ہے کہ ماں کے دودھ میں ایسی مخصوص اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو شیر خوار بچوں کو بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

حالیہ تحقیقی رپورٹس میں یہ عندیہ سامنے آیا تھا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والی یا ویکسینیشن کرانے والی خواتین دودھ کے ذریعے بچوں میں بیماری سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز منتقل کرتی ہیں۔

بامبینو گیسو چلڈرنز ہاسپٹل کی اس تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ بیماری کو شکست دینے والی خواتین بریسٹ فیڈنگ کے ذریعے بچوں میں زیادہ متحرک مدافعتی ردعمل متحرک کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ 2 ماہ کی عمر میں ماں کا دودھ پینے والے شیر خوار بچوں کے لعاب دہن میں ایسی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلی بار ثابت کی ہے کہ ماں بھی اپنے نومولود بچوں کا مدافعتی نظام دودھ سے منتقل ہونے والی اینٹی باڈیز سے متحرک کرتی ہیں۔

مگر نتائج سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ لعاب دہن میں موجود اینٹی باڈیز کورونا وائرس کا سامنا ہونے پر بیمار ہونے سے تحفظ ملتا ہے یا نہیں۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں بچوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹر ٹینا ٹان نے اس بارے میں بتایا کہ ایسا ممکن ہے کہ اس سے ناک یا آنکھوں کے راستے داخل ہونے پر وائرس سے تحفظ میں مدد ملتی ہے۔

مگر انہوں نے مزید کہا کہ بچوں میں وائرس سے تحفظ دینے والی اینٹی باڈیز کی منتقلی کا بہترین ذریعہ حمل کے دوران ویکسینیشن کرانا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے جس میں ایسے 22 نومولود بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا جن کی مائیں زچگی کے وقت کورونا وائرس سے متاثر تھیں۔

ان میں سے صرف ایک بچے میں پیدائش کے بعد کووڈ کی تصدیق ہوئی جبکہ ایک چند دن بعد اس سے متاثر ہوا۔

محققین نے دریافت کیا کہ جب ان بچوں کی عمر 2 ماہ ہوئی تو جن کو ماں کا دودھ مل رہا تھا، ان کے لعاب دہن میں کورونا کے اسپائیک پروٹین کو جکڑنے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔

مگر جن بچوں کو ڈبے کا دودھ پلایا جارہا تھا ان میں ایسا دریافت نہیں ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں