نور مقدم قتل کیس: عدالت کا ظاہر جعفر کو اپنا رویہ ’درست‘ کرنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 07 نومبر 2021
ظاہر جعفر نے کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی اور ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی پر نازیبا الفاظ کسے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ظاہر جعفر نے کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی اور ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی پر نازیبا الفاظ کسے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ اگر وہ کمرہ عدالت میں قابل اعتراض رویہ اپنانے سے باز نہیں آئے توعدالت میں ان کی حاضری روک دی جائے گی۔

عدالتی مراسلے میں کہا گیا کہ ’ظاہر ذاکر نے عدالت میں ہنگامہ برپا کیا اور عدالتی کارروائی میں مداخلت کی کوشش کی، انہیں اپنا رویہ درست کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے بصورت دیگر انہیں عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے گا اور جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کا حصہ بنایا جائے گا‘۔

مزیدپڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ’غلط الفاظ‘ پر جج نے ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا

مراسلے میں کہا گیا کہ انسپکٹر مصطفیٰ کیانی نے عدالت کے احاطے میں سیکیورٹی کے لیے تعینات پولیس اہلکاروں کے ساتھ ظاہر جعفر کے رویے سے متعلق رپورٹ بھی جمع کرائی تھی، یہ حکم نور مقدم قتل کیس کی 3 نومبر کو ہونے والی سماعت کے حوالے سے جاری کیا گیا۔

سماعت کے دوران ظاہر جعفر نے کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی اور ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی پر نازیبا الفاظ کسے۔

ظاہر جعفر نے دوران سماعت کہا تھا کہ ’یہ عدالت گندگی کے سوا کچھ نہیں ہے، یہ عدالت اُسے گھسیٹ رہی ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے، میں نے اس سے زیادہ جعلی چیز کبھی نہیں دیکھی‘۔

نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کہا تھا کہ ’میں آپ لوگوں کو مجھے پھانسی دینے کا موقع دے رہا ہوں لیکن پھر بھی آپ لوگ گھسیٹ رہے ہیں، یہ سب ایک کٹھ پتلی شو ہے، میں نے اپنی پوری زندگی میں اس سے زیادہ نااہل لوگوں کو ایک کمرے میں نہیں دیکھا‘۔

مزیدپڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کا پولیس سے ہاتھا پائی کے مقدمے میں ریمانڈ

جس کے بعد جج نے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے باہر لے جائیں۔

جب پولیس ظاہر جعفر کو روکنے کے لیے آگے بڑھی تو انہوں نے انسپکٹر مصطفیٰ کیانی کو کالر سے پکڑ لیا۔

واقعے کی ویڈیو فوٹیج میں پولیس اہلکاروں کو ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے گھسیٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب وہ مزاحمت کرتا رہا تو 4 پولیس والے نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم کو باہر لے گئے اور دوبارہ لاک اپ کردیا۔

جس کے بعد جج نے ریمارکس دیے کہ وہ ملزم پر توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کررہے لیکن مقدمے کی سماعت جیل میں ہی شروع کریں گے۔

تحریری حکم نامے میں جو بعد میں اسی دن 3 نومبر کو جاری کیا گیا، جج نے استغاثہ کو ہدایت کی کہ وہ باقی گواہوں کو 10 نومبر (بدھ) کو پیش کریں۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس کے بارے میں وہ تمام معلومات جنہیں جاننے کی ضرورت ہے

بعد ازاں تھانہ مارگلہ میں انسپکٹر غلام مصطفیٰ کیانی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا اور مقدمے کے متن میں کہا گیا کہ ملزم نے کمرہ عدالت میں گالم گلوچ کی۔

خیال رہے کہ 3 نومبر کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کی جانب سے مسلسل ’غلط الفاظ‘ استعمال کرنے پر انہیں کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا تھا جبکہ 4 نومبر کو کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو پولیس سے ہاتھا پائی کے ایک اور مقدمے میں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو انہیں اپنی بیٹی نور مقدم کو گھر سے غائب پایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند پایا اور اس کی تلاش شروع کی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہے اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے متاثرہ کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔

اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں